دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
''56انچ کا سینہ تمہیں بچا نہیں سکتا ''،اتر پردیش وارانسی کی گیان واپی مسجد معاملے پہ مہاراشٹر کی بی جے پی لیڈر کو دھمکی آمیز خط موصول
No image نئی دہلی ( مانیٹرنگ رپورٹ)اتر پردیش کی گیان واپی مسجد سے متعلق مسلمانوں کے خلاف عدالتی فیصلے کے بعد مہاراشٹرا کی ایک لیڈر چارول اگروال کو ایک دھمکی آمیز خط ملا ہے جس میں اسے کہا گیا ہے کہ ''56 انچ کا سینہ'' ، مراد وزیر اعظم مودی، تمہیں بچا نہیں سکتا۔ الور مہاراشٹرا پولیس نے معاملے کا مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہے۔بی جے پی کی مقامی لیڈر نے گیان واپی مسجد کے معاملے پہ فیس بک پہ ایک پوسٹ شیئر کی تھی۔اس دھمکی آمیز خط کے ملنے سے بی جے پی لیڈر چارول اگروال اور اس کا خاندان شدید خوفزدہ ہو گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق حال ہی میں عدالت سے گیان واپی مسجد کو لے کر آئے فیصلے کے بعد الور کی بی جیپی لیڈر چارول اگروال کو ایک دھمکی بھری چٹھی ملی میں لکھا گیا ہے، 56 انچ کا سینہ کہاں گیا، 25 ستمبر سے پہلے پہلے تمہارا حال ادئے پور والے لڑکے کے جیسا کردیں گے، تمہارے 56 ٹکڑے کردیں گے۔ یہ چٹھی جب چارول اگروال تک پہنچی تو افراد خاندان سہم گیا۔ یہ چتھی لے کر چارول اور ان کے افراد خاندان الور پولیس کے پہنچے۔ پولیس سبھی پہلووں کی جانچ کررہی ہے۔معاملے کی جانچ کررہی الور کی صدر تھانہ پولیس نے بتایا، چارول شالیمار ایکسٹینشن یوجنا میں رہتی ہیں۔ وہ اپنے گھر پر تھیں، شوہر بچے کو اسکول چھوڑنے گئے ہوئے تھے۔ جب واپس آئے تو باہر ایک چٹھی پڑی تھی، اس میں لکھا تھا کہ گیان واپی ہمارا ہے، ہم اسے لے کر رہیں گے۔لفافہ کھولنے کے بعد جب چٹھی باہر نکالی گئی تو اس میں ادئے پور کے واقعے کا ذکر تھا اور چارول کے لئے لکھا ہوا تھا کہ 25 ستمبر تک تمہاری جان لے لی جائے گی۔ 56 انچ کا سینہ کسی کام نہیں آئے گا۔
واضح رہے کہ اتر پردیش کے وارانسی کی گیانواپی مسجد 1991 میں، کاشی وشوناتھ مندر کے عقیدت مندوں کی طرف سے ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ مسجد مغل شہنشاہ اورنگزیب کے حکم پر بھگوان وشویشور مندر کو تباہ کرنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ 1991 کے مقدمے کی کارروائی پر تب سے الہ آباد ہائی کورٹ نے روک لگا دی لیکن ایک اور مقدمہ 2021 میں پانچ خواتین شیو عقیدت مندوں کی طرف سے ایول سینئر جج، وارانسی کے سامنے دائر کیا گیا تھا، جس میں گیانواپی مسجد کے علاقے میں "ایک قدیم مندر کی پرنسپل سیٹ پر رسومات کی بحالی" کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ہندو عقیدت مندوں اور انجمن انتفاضہ مسجد وارانسی (مسجد کمیٹی) کے ساتھ ساتھ دوسروں کی درخواستوں پر وارانسی کی سول عدالت اور الہ آباد ہائی کورٹ دونوں کی طرف سے متعدد احکامات صادر کرنے کے بعد یہ تنازعہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔وارانسی کی عدالت نے حکم دیا کہ اس مسجد کی مکمل تحقیقات کر کے اس میں مندر قائم ہونے کی بابت کھوج لگایا جائے۔ عدالت کے اس فیصلے سے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور دوسرے مقدس مقامات پہ انتہا پسند ہندوئوں کی طرف سے ایسے دعوے کرنے کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے کہ مسلمانوں کی مساجد، مقدس مقامات مندروں پہ تعمیر کئے گئے ہیں۔
واپس کریں