دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
لندن میں مقیم معروف صحافی واحد کاشر کی ' ٹوئٹر سپیس' میں شاہ غلام قادر اور ڈاکٹر سید نزیر گیلانی کی شرکت۔ ایڈیٹر ' کشیر' اطہر مسعود وانی کی گفتگو
No image اسلام آباد ( کشیر رپورٹ) گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے آزاد کشمیر میں منعقدہ ایک سیاسی جلسے میں ہندوستان اور پاکستان کو برابر کا درجہ دینے والوں کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال کیا۔آزاد کشمیر میں خود مختار کے حامیوں کی طرف سے خیال کیا گیا کہ شاید یہ ان کے خلاف تنقید ہے اور ان کی طرف سے سوشل میڈیا پہ ایک مہم شروع ہو گئی۔ اس صورتحال میں آزاد کشمیر کے علاقے ڈڈیال سے تعلق رکھنے والے لندن میں مقیم ' جے کے ویب ٹی وی ' سے وابستہ معروف صحافی واحد کاشر نے گزشتہ شب ٹوئٹر پہ ایک سپیس کا اہتمام کیا جس میں مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر، جموں کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس کے صدر ڈاکٹر سید نزیر گیلانی اور دیگر کئی شخصیات کے علاوہ مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تقریبا چار گھنٹے کی اس ٹوئٹر سپیس https://twitter.com/i/spaces/1OdJrzPeqglJX میں شاہ غلام قادر اور ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے گفتگو کی اور سوالات کے جواب بھی دیئے۔اس ٹوئٹر سپیس میں ، ایڈیٹر '' کشیر'' اطہرمسعود وانی نے موضوع کے حوالے سے اظہار خیال کیا،جوٹوئٹر سپیس https://twitter.com/i/spaces/1OdJrzPeqglJX میں ، تین گھنٹے اٹھارہ منٹ سے لے کر تین گھنٹے اٹھائیس منٹ پچپن سیکنڈ تک محیط ہے۔
اطہر مسعود وانی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ '' غیر متعلقہ، غیر ضروری باتوں میں سنجیدہ اور ، محدود ہو جانا کوئی ہم کشمیریوں سے سیکھے۔ کچھ حقائق ، جن پہ دوست زیادہ زور دے رہے ہیں ، وہ اصولی ہیں، وہ کتابوں میں درج حقائق ہیں، جبکہ موثر اور مقدم حقائق زمینی حقائق ہیں جنہیں اظہار رائے میں بری طرح نظر انداز کیا جانا نظر آ رہا ہے۔بنیادی اہمیت کی بات یہ ہے کہ پانچ خطوں کے جذبات و احساسات قطعی مختلف ہیں۔تاہم متنازعہ ریاست کے تمام غیر مسلم ہندوستان کے ساتھ رہنے پہ متفق ہیں، تمام تقسیم مسلمانوں میں ہی نظر آتی ہے۔
ایک پنجابی مہاورہ ہے کہ ''پھل موسم دا گل ویلے دی'' ، کشمیریوں میں اختلافات کے عنوانات بہت سے ہیں ، ہم پہلے ہی مختلف خانوں میں تقسیم ہیں ، مزید تقسیم کرنے والے ایسے عنوانات میں محدود نہ ہوں جو ابھی قبل از وقت ہی نہیں بلکہ ایسا کرنا بے موقع بے محل بھی ہے، انڈیا کشمیر کو ہڑپ کر رہا ہے، کشمیریوں کے خلاف ظلم و جبر کے نئے عالمی ریکارڈ قائم کر رہا ہے اور دو بھائی اس بات پہ جھگڑا کر رہے ہیں کہ کشمیر میرا ، نہیں کشمیر میرا ۔
میں مقبوضہ کشمیر میں کی جانے والی جدوجہد، قربانیوں کے ایک ایک لمحے سے آگاہ ہوں ، وقاربھٹی صاحب (مقبوضہ جموں کشمیر) کی ایک بات کے حوالے سے یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد اور قربانیوں کو موجودہ نسل کے حوالے سے ہی نہ دیکھا جائے بلکہ یہ کئی نسلوں کی جدوجہد اور قربانیوں کی داستان حقیقت ہے جس سے آگاہی ہونا کشمیر کاز کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے لئے لازم ہے ، اس سے لاعلمی کی صورت ایک بنیادی اور مہلک غلطی ہو سکتی ہے۔
کشمیر کا مسئلہ مذہبی مسئلہ، تنازعہ نہیں بلکہ ایک سیاسی مسئلہ اور معاملہ ہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔
خود مختار کشمیر کی بات کرنے والے بھائی کی رائے کا احترام لازم ہے تو دوسرے کشمیری بھائی کی رائے کا احترام کرنا بھی لازم ہے۔میں کسی کی رائے پہ یہ نہیں کہوں گا کہ میں آپ کی بات سے متفق نہیں،یہ اس کی رائے ہے، اسی طرح میری رائے پہ کسی کا یہ کہنا جائز نہیں کہ ہم آپ کی رائے سے متفق نہیں ، میں نے کب کسی کو کہا ہے کہ میر ی بات سے اتفاق کرنا لازمی ہے، تاہم مجھے اپنی رائے رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا احترام کرنے کی توقع ضرور ہو سکتی ہے۔
کشمیر کاز کا حوالہ دیتے ہوئے آزاد کشمیر کی مقامی سیاست کے امور کو کشمیر کاز میں لپیٹ کر پیش کرنے کی کوشش درست نہیں، جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان نے اس دلیل کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردی شروع کی کہ اگر افغانستان میں جہاد جائز ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ اسی سوچ و فکر کو پروموٹ کرنے کی سوچ اور تحریک کی جھلکیاں یہاں، آزاد کشمیر میں بھی نظر آتی رہتی ہیں۔
میں اپنے آپ کو نہ الحاق کے خانے میں محدود کرتا ہوں اور نہ ہی خود مختار کشمیر کے خانے میں خود کو محدود کرتا ہوں، میری ترجیح، پوائنٹ آف بیلنس متنازعہ ریاست کے مظلوم عوام کے حقوق اور مفادہیں اور میں پاکستان کی اہمیت اور افادیت کو اچھی طرح انڈر سٹینڈ کرتا ہوں۔
جہاں تک پاکستان کی غلط پالیسیوں کا تعلق ہے تو اس حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ اس خرابیاں اس وجہ سے ہیں کہ پالیسیاں بنانے اور چلانے میں پاکستان کی پارلیمنٹ بے اختیار ہے، پاکستان میں سیاسی جدوجہد ووٹ کو حق دو کے حوالے سے یہی ہے کہ شفاف ، منصفانہ، آزادانہ الیکشن کے ذریعے قائم کردہ عوامی پارلیمنٹ کو پاکستان کی تمام پالیسیاں بنانے اور چلانے کا مقدم اختیار ہونا چاہئے۔
پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ آزاد کشمیر حکومت کا وہ مقام بحال کیا جائے جس کے لئے آزاد کشمیر حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔مقامی امور و مقامی مفادات میںمحدود رہتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کے کشمیر کاز کے حوالے سے بنیادی ذمہ داریوں، کردار کو بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ جیسا کہ شاہ صاحب نے کہا کہ عملی طور پر شاہ صاحب آزاد کشمیر کے نمائندے ہیں ، تاہم ، ہم آزاد کشمیر کے اپنے پارلیمانی نمائندوں، سیاسی رہنمائوں سے یہ جائز مطالبہ اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ تمام متنازعہ ریاست کے ، تمام متنازعہ ریاست کے عوام کے حقوق کو اپنا فرض ، اپنی ذمہ داری سمجھیں اور اس کی ادائیگی پر بھر پور توجہ دیں”۔

واپس کریں