دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مشیر امور کشمیر و کونسل قمرالزمان قائرہ کی 15ویں ترمیم سے متعلق وضاحتوں سے بھی عوامی تشویش دور نہیں ہوتی
No image مظفر آباد( کشیر رپورٹ)وزارت امور کشمیر و کونسل کے مشیر قمر الزمان قائرہ نے مظفر آباد میں15ویں مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر حکومت نے 31مئی کو، پاکستان مسلم لیگ ن کی پاکستان حکومت کے آخری دن، آزاد کشمیر حکومت نے ایگری کر کے ،1974کے آئین کے11آرٹیکلز میں ترامیم منظور کرائیں،31کو یہ بل وفاقی کابینہ سے منظور ہوتا ہے،19،21،31،33،34،37،50، 50Aاور51،تھرڈ شیڈول، یہ آرٹیکلزترمیم کرنے کی اجازت لیتے ہیں،وفاقی کابینہ سے منظوری لیتے ہیں، اگلے دن یکم جون کو آزاد کشمیر اسمبلی کے اجلاس میں وہ بل منظور ہوتا ہے۔2جون کو صدر آزاد کشمیر اس کی توثیق کرتے ہیں اور شام کو وہ گزٹ نوٹیفیکیشن کے طور پر پرنٹ ہو جاتا ہے،اس طرح 13ویں ترمیم کا قانون بن گیا۔اب یہ قانون ہے اس سے کوئی مفر نہیں ہو سکتا۔
اس کے بعد14ستمبر2018 کو، پاکستان میں نئی حکومت، عمران خان آنے کے بعد ،وفاقی حکومت اور آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے رابطوں پر،وزیر اعظم عمران خان نے ایک کمیٹی بنائی اور اس کمیٹی کا مینڈیٹ یہ ہوتا ہے کہ وہ 13ویں ترمیم پر عملدرآمد، اور اگر اس میں کوئی رکاوٹیں، کوئی مسئلہ آ رہا ہے تواس کی نشاندہی کریں اور اس کا حل دیں، اس کا مقصد قطعا اس کو ریورس کرنا نہیں تھا، اس میں دیئے ہوئے اختیارات کو ختم کرنا نہیں تھا جو یہاں پہ ایک کہانی کھڑی کی گئی ہے، اس پہ ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا ہے ، پھر15جولائی2020کو14ویں ترمیم موو ہوتی ہے، آزاد کشمیر کابینہ اس پر تحفظات کا اظہار کرتی ہے،) سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی کابینہ نے اس 14ویں ترمیم کے مسودے کو کابینہ اجلاس میں '' مسترد '' کر دیا تھا) وہ ترمیم 24دسمبر2020 کو منظور کی جاتی ہے،یہ13ویں ترمیم میں ترمیم ہے، اس لئے 14ویں ہے۔اس کے بعد وہ جو کمیٹی بنائی گئی تھی وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے،اس کمیٹی کی دو میٹنگز ہوئیں،اس میں آزاد کشمیر حکومت کے نمائندے بھی شریک تھے، وہ کمیٹی درج بالا مینڈیٹ کے مطابق اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کو پیش کرے گی اور وفاقی کابینہ اپنی مرضی سے اس کو منظور کرے گی اور پھر وہ معاملہ آزاد کشمیر اسمبلی میں آ جائے گا، آزاد کشمیر اسمبلی کے بغیر کوئی بل پاس نہیں ہو سکتا،پاکستان حکومت کی طرف سے کوئی حکم نافذ نہیں ہو سکتا،یہ بات یاد رکھیں۔پھر ہماری حکومت آ گئی، یہاں قمر الزمان قائرہ نے کہا کہ اس پہ جتنا ہنگامہ کیا ہے تو مجھے بھی بات کرنے دیں۔
قائرہ نے کہا کہ مالی اختیار واپس لینے کو نہ کوئی ارادہ ہے اور نہ اس کی کوئی ڈاکومنٹ ہے،جو انتظامی اختیار ٹرانسفر ہوئے اس میں سے بھی ایک اختیار بھی نہ اس کا کوئی ارادہ ہے نہ اس کی طرف تحرک۔سب کمیٹی جو سفارشات دے گی وہ میں نے آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں، آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ شیئر کرنی ہیں،یہاں سے منظوری کے بعد وہ وفاقی کابینہ میں بھیجی جائے گی، اس مسودے کو جو آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور حکومت کے ساتھ ایگریڈ ہو گا،وہ وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد آزاد کشمیر حکومت پاس کرے گی۔ اس پہ مجھے بتا دیں کہ کیا گناہ ہوا؟ اب مسئلہ کیا ہے، کشمیر کونسل ایک ایسا ادارہ بنایا گیا، وفاقی اور صوبائی دو طرح کے قوانین ہوتے ہیں،پاکستان میں صوبوںکے پاس اپنے اختیارات ہیں، مرکز کے پاس اپنے اختیارات ہیں، وفاقی اور صوبائی قانون سازی کی لسٹ ہے، اسی طرح آزاد کشمیر حکومت کے پاس اپنے اختیارات ہیں، تیس، بتیس یا چونتیس فیڈرل کے ہیں جو فیڈرل گورنمنٹ نے پاس کرنے ہیں،فیڈرل کے قوانین سینٹ پاس کرتی ہے،یا قومی اسمبلی یا جائنٹ سٹنگ، سینٹ قومی اسمبلی میں آزاد کشمیر کی نمائندگی نہیں ہے،آزاد کشمیرپاکستان کا آئینی حصہ نہیں ہے، وہ یہاں کے قوانین نہیں بنا سکتے کیونکہ یہ ان کی جیورسڈکشن میں نہیں آتے، اس معاملے کو حل کرنے کے لئے کون سا فورم ہو گا؟اس مسئلے کے حل کے لئے ایک کونسل تشکیل دی گئی،یہ قانون سازی کے لئے تھا کہ جائنٹ سٹنگ کہاں سے ہو گی، کونسل سے مالیاتی ، انتظامی اختیارات لے لئے گئے، اس کا قانون سازی کا اختیار بھی ختم کر دیا گیا، اس وقت اس کے ممبر کا کردار صرف مشاورت ہے،تو فیڈرل لیجس لیٹیو لسٹ کی قانون سازی کون کرے گا؟ اب یہ اختیار صرف وزیر اعظم پاکستان کے پاس ہے کہ وہ نوٹیفائی کردے، اسی طرح کے اور بھی معاملات تھے کہ آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ بیٹھا جائے،ان امور کو دیکھ کر ان پر فیصلے کئے جائیں اورپھر وہ آپ کی اسمبلی میں آنا ہے،یہیں سے منظور ہو گا، کونسل سے یہ درست اعتراض تھا، آزاد کشمیر کو ایک صوبائی سٹیٹس کے طور پر لیا جائے گا لیکن ساتھ لکھا گیا ہے کہ آپ کا ایک سپیشل سٹیٹس ہے، کمیٹی کو بھی بتایا گیا کہ آزاد کشمیر کیلئے صرف صوبے کی سطح کی بات ہی نہیں کرنی بلکہ آزاد کشمیر کی حکومت کا ایک سپیشل سٹیٹس ہے،اس سٹیٹس کو ملحوظ خاص رکھتے ہوئے تجاویز دی جائیں، اس کو ایک بدنیتی ظاہر کر دی گئی،یہ تصور کیا گیا کہ ہم پتہ نہیں کہ کیا کرنے لگے ہیں، چھیننے لگے ہیں، حاصل کرنے لگے ہیں ، ایسا کچھ نہیں ہے،یہ آزاد کشمیر کے لوگوں کے حقوق کا اشو ہے، ان کے وسائل کا اشو ہے،اس کو اپنی صلاحیت امپروو کرنے کی ضرورت ہے، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ کونسل کو واپس کرو بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اپنی صلاحیت کو امپروو کرے،تا کہ آپ کا خود مختار ٹیکسیشن نظام بہتر ہو۔
2012-13میں ٹیکس وصولی7.7بلین روپے تھی، اگلے سال یہ 9.9ہو گئی، 2013-14میں11.038ہو گئی ،پھرانیس فیصد اضافہ ہو اور 12.97ہوئی،اس سے اگلے سال دو فیصد اضافہ ہوا، اور پھر 2017-18میںاٹھارہ فیصد اضافہ ہوا،2019میں یہ آزاد کشمیر حکومت کے پاس آ گیا،اس میں اضافہ چھ فیصد ہوا،15.7بلین کے قریب ہوا،پھر دو فیصد اضافہ 16.72ہوا، اس سے اگلے سال پچیس فیصد اضافہ ہوایہ بیس اشاریہ نوے ہوا، اور گزشتہ مالی سال میں 9.5فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس کو امپروو کرنے کی ضرورت ہے کہ آزاد کشمیر کے ٹیکس کی مقدار میں اضافہ ہو،یہ تجویز ہے ہماری طرف سے لازمی نہیں ہے۔
میری طرف سے کشمیر کے تمام بہنوں، بھائیوں کو یہ پیغام ہے کہ حتمی اتھارٹی آزاد کشمیر اسمبلی کے منتخب نمائندے ہیں۔آزاد کشمیر اسمبلی نے ہی دو تہائی اکثریت سے منظور کرنا ہے، تو کون سا ایسا اختیار ہے کہ وہاں بیٹھا وزیر امور کشمیر ، یا وزیر اعظم پاکستان، یا کابینہ یا کمیٹی ایسا کر سکتی ہے۔

قمر الزمان قائرہ فوج کے ہیلی کاپٹر پہ اسلام آباد سے مظفر آباد پہنچے۔حکومت پاکستان کے وزارت امور کشمیر و کونسل کے وزیر اعظم پاکستان کے مشیر قمر الزمان قائرہ کے دورہ مظفر آباد اور پریس کانفرنس میں وضاحتیں دینے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ 15ویں ترمیم پر سخت تنقید ہونے پر حکام بالا، مقتدر ادارہ کی طرف سے قائرہ کو مظفر آباد جا کر تشویش دور کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
یوں قائرہ نے عوامی تشویش کو ہنگامہ،کہانی، بلاجواز شور وغیرہ قرار دیا ہے۔ قمر الزمان قائرہ نے ایک سیاست دان کے طورپر اس معاملے کو سیاسی انداز میں '' کور'' کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے15ویں آئینی ترمیم کے دو مقصد بیان کئے کہ ایک تو یہ کہ آزاد کشمیر کے آئین کے جو امور حکومت پاکستان کے پاس ہیں، ان پر قانون سازی کے لئے سہولت کاری اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر حکومت کی ٹیکس وصولی کی صلاحیت کو بہتر بنانا۔ مشیر امور کشمیر نے ایک سیاست دان کی طرح سیاسی طریقے سے اس معاملے پر عوامی تشویش دور کرنے کی کوشش کی ہے۔وزارت امور کشمیر و کونسل کے مشیر قمر الزمان قائرہ نے مظفر آباد میں15ویں مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے پریس کانفرنس میں پرانی باتیں، پیپلز پارٹی کی سیاسی باتیں کرتے ہوئے کافی حد تک15ویں ترمیم کئے جانے کے اغراض و مقاصد کو کیمو فلاج کرنے کی کوشش کی ہے۔
قائرہ صاحب کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے مالیاتی ، اتنظامی اختیارات میں کمی کا کوئی ارادہ نہیں تو مجوزہ مسودے کے نکات کیا ہیں؟ وہ نکات تو مالی، انتظامی اختیارات کونسل کو دیئے جانے پر مبنی ہیں، اور یہ کہ یہ مسودہ کونسل افسران کا تیار کردہ ہے۔ان کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ ترامیم آزاد کشمیر اسمبلی ہی منظور کر سکتی ہے لیکن انہوں نے مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے کے نکات کو اچھی نیت پر مبنی بتاتے ہوئے اسے دوسرے ہی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔جبکہ مسودے کے نکات واضح طور پر کونسل کو مالیاتی و انتظامی اختیارات دینے کی بات کرتے ہیں۔
یوں وزیر اعظم پاکستان کے مشیر امور کشمیر و کونسل کی ان وضاحتوں کے باوجود 15ویں ترمیم سے متعلق عوامی تشویش دور نہیں ہوتی، ترمیم کے مسودے میں شامل امور کو، اچھی نیت اور اچھی کوشش کہنے سے مسودے میں شامل امور کی سنگینی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔


واپس کریں