دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سفارت کاری،ڈپلومیسی کے شعبے میں پاکستان کی زبوں حالی، سابق سینئر سفارت عبدالباسط کا اہم تجزئیہ
No image اسلام آباد21جولائی2022( کشیر رپورٹ)پاکستان کے سابق سینئر سفار ت کار عبدالباسط نے سفارت کاری، ڈپلومیسی میں درپیش خرابیوں اور ضروریات کا اس طرح سے احاطہ کیا ہے کہ جس سے پاکستان کے سفارت کاری کے شعبے کی زبوں حالی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ ناکامیوں ،نامرادی سے بچنے اور مثبت پیش رفت کے لئے خرابیوں اور خامیوں کی نشاندہی بنیادی شرط ہوتی ہے،تب ہی بہتری اور اصلاح کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن اگر اپنی غلطیوں، خامیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کا مروجہ طریقہ کار ہی اپنایا جائے ( جس کا پاکستان میں چلن ہے) تو پھر ہمارے قابل رحم حال اورمستقبل میں کوئی مزاحم نہیں ہو سکتا۔

عبدالباسط نے اپنے ایک وڈیو بیان میں خارجہ امور کے شعبے کے حوالے سے10اہم نکات بیان کیئے ہیں جو پاکستا ن کے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے از حد ضروری ہی نہیں بلکہ ناگزیر ہیں اور ان امو رکو یقینی بنائے بغیر پاکستان کے قومی اہداف میں کسی بھی قسم کی پیش رفت تو ایک طرف بلکہ الٹا ناقابل تلافی نقصانات کی صورتحال درپیش ہے اور اس صورتحال میں مزید سنگینی درپیش ہو سکتی ہے اور یہ ملک کے لئے مہلک ترین نتائج کا منظر نامہ بھی پیش کرتی ہے۔

سابق سینئر سفارت کار، جو انڈیا میں پاکستان کی سفیر بھی رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ پاکستان کی سفارت کاری ایک زبوں حالی کا شکار ہے،اس میں صرف فار ن آفس کا کردار نہیں ہے بلکہ اس میںتمام سٹیک ہولڈرز کا بھی کردار ہے،تاہم ان معاملات میں دفتر خارجہ کو لیڈ لینا ہوتی ہے،لینی چاہئے۔عبدالباسط اس حوالے سے دس نکات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
پہلی بات تو یہ کہ بطور ایک ریاست کے قومی مفادات واضح ہونا چاہئیں،اور ملک کے فارن پالیسی کے اہداف کیا ہیں،قومی مفادات ایک تو جنرل ( عمومی) ہوتے ہیں یعنی خود مختاری، سوویرینٹی، ٹیری ٹوریل انٹی گریٹی ، یہ تو سب کو معلو م ہے کہ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا لیکن اس کے علاوہ بھی اہم امور ہوتے ہیں جو فارن پالیسی کے مقاصد کا حصہ بنتے ہیں،اس بارے میں clarityہونی چاہئے، کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں،انٹرنیشنل ریلیشنز کے میدان میں۔
جب یہ clarityآ جاتی ہے تو دوسرا سٹیپ یہ ہوتا ہے کہ پھر آپ کو ایک مربوط حکمت عملی بنانی پڑتی ہے، اور حکمت عملی وہ ہو جو آپ کی limitationکو سامنے رکھتے ہوئے اور جو قابل عمل بھی ہو، ورنہ تو وش لسٹ ہو جائے گی، پھر تو آپ بے شک ایسی ہزاروں وش لسٹ بناتے رہیں،اس میں آپ کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے، اصل معاملہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ حکمت عملی بنائیںتو آپ کو معلوم ہو کہ آپ اس کو impliment بھی کر سکتے ہیں، یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے جسے ہم نظر انداز کر دیتے ہیں، اس میں ہونا یہ چاہئے کہ آپ جو حکمت عملی بنا رہے ہیں اس میںtactical flexcibilityہونی چاہئے۔
ڈپلومیسی کی ایک مشہور تعریف ہے کہ
Diplomacy is the art of accepting the feasible in order to advance the desirableمطلب کہ اگر آپ آج کسی چیز پہ agreeبھی کر رہے ہیں کسی ملک کے ساتھ تو وہ ایگریمنٹ آپ کو آپ کے ہدف سے جو آپ کا حتمی مقصد ہے،اس سے آپ کو قریب لے کر جائے،جو آپ آج کسی چیز بھی agreeکر رہے ہیں، اس سے آپ کو دور لے کر نہ جائے، یہ بڑا اہم ہوتا ہے سٹریٹیجی میں اور ٹیکٹس میںجو لنک ہے اس کو mantainکرنا بڑا ضروری ہوتا ہے، اس کو سامنے رکھنا بڑا ضروری ہوتا ہے، تبھی کہیں جا کر آپ اور یہ ٹیکٹیکل ایڈ جسمنٹ، ری ایڈجسمنٹ اس لئے بھی ضروری ہے کہ فارن پالیسی کو linier ایک خط پہ نہیں چلتی ، نشیب وفراز بھی آتے رہتے ہیں،اس لئے ضروری ہے کہ ٹیکٹیکل flexcibility ہونی چاہئے۔

تیسرا اہم نقطہ ہے جو پاکستان کے تناظر سے بہت ضروری ہے کہ ہم نے اس سے بڑا نقصان اٹھایا ہے،کہ ہم بہت زیادہ بولتے ہیں،ہر شخص فارن پالیسی کے بارے میں بات کرتا ہے،منسٹر آف ریلوے بھی پاکستان کی فارن پالیسی پہ بات کرے گا،کابینہ کا ہر ممبر اپنا حق اور فرض سمجھتا ہے کہ وہ فارن پالیسی کے اشو پہ بات کرے،اس سے ہمیں اجتناب کرنا پڑے گا، اسی سے inconsistencyبھی آتی ہیں، سٹیٹ پوزیشن سے آپ باہر نہیں نکل سکتے ، ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں لیڈروں کی جو ہماری سٹیٹ پالیسی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی تھیں لیکن وہ جوش میں آگئے اور ایسی ایسی باتیںانہوں نے کہیں کہ جس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے ۔

اس کی حالیہ مثال کہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں عمران خان کوٹلی گئے تھے تو انہوں نے کہہ دیا کہ جموں و کشمیر کے بارے میں ہم تھرڈ آپشن بھی ان کو دیں گے،کہ وہ اپنی الگ ریاست بنا لیں،اس کا سٹیٹ پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے،ہمارے آئین، اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اسی طرح پہلے آصف زرداری صاحب نے ایک بیان دیا تھا کہ جب وہ صدر بنے کہ ہم بھی نو فرسٹ یوز جو ہمارا نیوکلئیر ڈاکٹرائن ہے، اس پہ عمل کریں گے، اس قسم کی صوتحال سے بچنا چاہئے۔

اسی ضمن میں ایک اور بات بھی ہے کہ ، اسے آپ اگلا نقطہ کہہ لیں کہ چوتھا کہ ہمgrievancesبہت کرتے ہیں، ہم شکوے شکایات, رونا دھونا کہ دنیا ہمیں سپورٹ نہیں کرتی ، یہ بہت زیادہ ہو گیا ہے، اس کو ہمیںاپنے narrative سے نکالناہے پبلک ڈسکورس سے اس کو نکالنا پڑے گا کیونکہ ہر وقت complaint کرنا،یہ ٹھیک نہیں رہتا ڈپولومیسی میں ، اس سے بھی باہر نکل کر ہمیں چیزوں کو دیکھنا پڑے گا۔

پانچواں نقطہ کہ یہ بڑا ضروری ہے کہ جہاں آپ کو فارن پالیسی objectiveمیں بڑی clarity ہو، وہاں آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ جو آپ کے خاص اشوز ہیں، جموں وکشمیر ہے، ہمارا نیوکلئیر پروگرام ہے، ہماری lines bottom کیا ہیں، ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اور اس کے beyondہم نہیں جا سکتے ، اور یہ bottom linesآپ اپنے سینے کے ساتھ لگا کر رکھتے ہیں،آپ یہ شیئر نہیں کرتے دنیا کے ساتھ،یہ بھی بہت اہم ہے لیکن ہم ہر چیز، جیسے صدر مشرف فور پوائنٹ فارمولہ لے کر آگئے،اس کو انائونس کر دیا، تو جب آپ نے کہہ دیا کہ یو این ریزولوشنز کے باہر جا سکتے ہیں تو پھر مزاکرات کے لئے پیچھے رہ کیا گیا،تو اس قسم کی غلطیاں بھی ہم نے ماضی میں کی ہیں۔

چھٹا پوائنٹ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ great hast make great waist یعنی جلدبازی میں کوئی کام نہیں کرنا چاہئے، اور جلد بازی کی وجہ سے ہم نے بہت کچھ کھویا، مثال کے طور پرممبئی اٹیک جب ہو ا تو گیلانی صاحب نے فورا کہا کہ میں ڈی جی آئی ایس آئی کو بھیجنے کے لئے تیار ہوں یعنی آپ مان رہے ہیں کہ حملہ پاکستان سے ہوا ہے، اسی طرح جب پٹھان کوٹ ہوا تو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ فٹافٹ آپ ایف آئی آر گوجرانوالہ میں کروائیے،وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے وہ بھی ہم نے کیا ( یہا ں یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ملک کے حساس امور پر حکومت او راسٹیبلشمنٹ کے درمیان ّم آہنگی کا فقدان ہے) اور اس سے بھی ہم نے پٹھان کوٹ کا جو واقعہ ہوا تھا2جنوری2016کو اس کی responsibility ہم نےindirectlyلے لی، تو اس قسم کی چیزیں فارن پالیسی میں ڈپلومیسی میں بہت نقصان پہنچاتی ہیں، ان چیزوں سے بھی اجتناب کرنا چاہئے۔

چھٹا پوائنٹ یہ بھی ہے کہ in time decisionکہ ایک فیصلہ ہوتا ہے جو ٹھیک ہو سکتا ہے عام حالات میں لیکن یہ فیصلہ آپ کس وقت لے رہے ہیں ،یہ بہت اہم ہے، مثال کے طور پر ہم نے جو سیز فائر ا یگریمنٹ جو ہم نے 2015میں ہمارے وزیر اعظم نواز شریف نے یو این جنرل اسمبلی میں یہ تجویز کیا تھا لیکن اس وقت بھارت نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور پھر ہم نے آ کر دیکھا کہ25فروری2021کوہم نے بھارت کے ساتھ یہ ایگریمنٹ کر لیا، اب2015میں تو یہ ایگریمنٹ ٹھیک تھا لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ 2021میں یہ ایگریمنٹ ٹھیک نہیں تھا،یہ ill timeتھا، کیونکہ اس وقت5اگست2019کو بھارت نے کشمیر میں اقدامات لئے ، اس کے تناظر میں یہ ایگریمنٹ کی ٹائمنگ ٹھیک نہیں تھی، اسی طرح کرتار پور کالیڈور ، اگر ہم 5اگست2019سے پہلے کر لیتے تو ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد ہمیں اس پہ ہمیں مختلف طریقے سے ایکٹ کرنا چاہئے تھا،وہ ہم نے نہیں کیا ، بہر حال، اس کا بھی نقصان ہم اٹھائیں گے، بلکہ اٹھا رہے ہیں پہلے ہی۔

اگلا پوائنٹ یہ ہے جو آپ لوگوں کو زیادہ اہم نہ لگے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اہم ہے کہ ہم یہاں پروٹوکول کو observeنہیں کرتے، میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف کل ،پرسوں مصر کے سفیر سے مل رہے تھے، اسی طرح وہ ای یوکے ناظم الامور سے یہاں مل رہے تھے، تو ہم اپنے آپ کو اتنا کیوں گراتے ہیں؟ دنیا بھر میں کہیں ایسا نہیں ہوتا ، اور پھر جو لوگ ہیںکہ امریکہ سے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ بھی آ جاتا ہے تو اس کے ساتھ بھی ہمارے وزیر خارجہ مزاکرات کرنا شروع کر دیتے ہیں، مثال کے طور پر اس سال22مارچ کواسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ پاکستان آئی تھیں تو ہمارے وزیر خارجہ ہماری طرف سے لیڈ کر رہے تھے شاہ محمود قریشی صاحب ، تو اس پہ بھی ہمیں توجہ دینی چاہئے، کہ ہم خود اپنے آپ کو اتنا نیچے نہ گرائیں.

اور اگلا پوائنٹ یہ ہے کہ فارن ڈپلومیسی ایک پراسیس ہے، یہ کوئی ایک ایونٹ نہیں ہوتا، ہمیں اس پروسیس کو اسی طرح آگے لے کر چلنا چاہئے ، ون ون پوزیشن تخلیق کرنا چاہئے، ہمیں کو ئی obsessionنہیں ہونا چاہئے کہ سعودی عرب کے ساتھ یا یو اے ای کے ساتھ بھارت کے تعلقات ہو گئے تو ہمارے لئے بڑا مشکل ہو گیاہے، مشکل تو ہو گیا ہے لیکن ہمیں اس کو اس طرح ایڈریس کرنا چاہئے جس طرح وہ اشو متقاضی ہے ، تو یہ ایک اہم اشو ہے کہ ہم اسے ایک پروسیس کی طرح لیں, ایونٹ کے طور پر نہیں ، ہوتا یہی ہے کہ جب آپ ڈپلو میسی کو ایونٹ کے طور پر لیتے ہیں تو آپ انشیٹیوز کو آخر تک سسٹین نہیں کر پاتے، اور یہی ہماری ڈپلومیسی کا ایک بہت بڑا خلاء ہے کہ ہم جتنے بھی انشیٹیو لیتے ہیں اس کو ہم کو ہم صحیح معنوں میں آگے لے کر نہیں چلتے، بات کرتے ہیںپھر سو جاتے ہیں ،جاگتے ہیں تو پھر خیال آتا ہے ، تو یہ طریقہ نہیں ہوتا ڈپلومیسی کا ، تسلسل بہت ضروری ہوتا ہے جو کہ ہمارے سسٹم کے اندر بدقسمتی سے نہیں ہے۔

پھر ہمارا ایک بڑا فوکس ہمیشہ ایکmultilateralism پہ رہا ہے، فوکس اپنا باہمی تعلقات پہ رکھیں، اگر آپ کے باہمی تعلقات اچھے ہوں گے تو آپ کو ملٹی لیٹرل فورمز پہ بھی سپورٹ مل جائے گی لیکن ہمارا الٹا معاملہ ہے ہم ملٹی لیٹرل پہ زیادہ فوکس کرتے ہیں اور باہمی تعلقات پہ ہمارا فوکس نہیں ہوتا ، تواس سے بھی ہماری ترجیحات گڑ بڑ ہو جاتی ہیں، باہمی تعلقات ہوں گے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کو ملٹی لیٹرل فورمز پہ بھی سپورٹ ملتی ہے، یہ بھی ایک بہت اہم پوائنٹ ہے جو ہم سے مس ہو جاتا ہے۔

عبدالباسط نے کہا کہ آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک آپ فارن آفس کو restructureنہیں کریںگے،صحیح لوگ صحیح جگہوں پہ نہیں لگائیں گے ، اس وقت دفتر خارجہ اکیسویں صدی کے چیلنجز، اکنامک ڈپلومیسی ہو ،پبلک ڈپلومیسی ہو ، ان کو وہ ہینڈل نہیں کر سکتا کیونکہ ایک تو resourcesنہیں ہیں، بارہ تیرہ بلین ارب روپے کا سارا بجٹ ہے فارن آفس کا، وسائل بہت محدود ہیں تو اس وجہ سے کام بھی صحیح طور پر نہیں ہو پاتا،restruchingبھی بہت ضروری ہے کہ ہم نے کس طرح اپنی ترجیحات ، فارن پالیسی کے اہداف میں بڑی complexدنیا نمودار ہو رہی ہے، تو اس لئے ان سب چیزوں کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے،جو لوگ اس وقت فیصلہ سازی میں ہیں انہیں ان امور پر توجہ دینا چاہئے۔

واپس کریں