دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہندوستان کا اگلے سال جی 20کا سربراہ اجلاس مقبوضہ جموں وکشمیر میں منعقد کرانے کا اعلان ، پاکستان کے لئے بھی ایک بڑا امتحان
No image اسلام آباد ( کشیر رپورٹ) ہندوستان کے مطابق اگلے سال جی20کا سربراہ اجلاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے متنازعہ قرار دیئے گئے خطے مقبوضہ جموں وکشمیر میں منعقد کرایا جائے گا۔ہندوستان اس سال یکم دسمبرکوجی 20کی صدارت سنبھالے گا۔ جی 20 میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جمہوریہ کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ، امریکہ، اور یورپی یونین شامل ہیں جبکہ سپین کو بھی مستقل مہمان کے طور پر تنظیم میں مدعو کیا گیا ہے۔جی20میں تما م براعظموں کے بڑی معیشتیں شامل ہیں اور اس کے ارکان کا عالمی 'جی ڈی پی' کا80 فیصد، عالمی تجارت کا75فیصداور دنیا کی کل آبادی کی 60فیصد ہے۔ہر رکن کو ایک سال کے لئے تنظیم کی صدارت ملتی ہے۔G20 کا قیام 1999 میںعمل میں لایا گیا اور اس کا مقصدعالمی معیشت کے اہم مسائل پر بات چیت کے لیے نظامی طور پر اہم صنعتی اور ترقی پذیر معیشتوں کو اکٹھا کرنا ہے۔

ہندوستان کی مودی حکومت نے جی20کا سربراہ اجلاس مقبوضہ جموں وکشمیر میں منعقد کرانے کا اعلان کیا ہے تا کہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنے غاصبانہ اور جارحانہ اقدامات کے حوالے سے دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ جی20کا سربراہ اجلاس جموں میں منعقد کرایا جائے گا یا مقبوضہ کشمیر میں، تاہم یہ بات واضح ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جی20کا سربراہ اجلاس کرانے کی صورت مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی مدد سے مکمل کرفیو نافذ کراتے ہوئے ہی یہ اجلاس منعقد کیا جائے گا۔

ہندوستانی حکومت کی ہدایت پہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی انتظامیہ کی طرف سے ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے چیئرمین مقبوضہ جموں وکشمیر انتظامیہ کے پرنسپل سیکرٹری/ہائوسنگ ،اربن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ۔ کمشنر /سیکرٹری ٹو گورنمنٹ ، ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ، ممبر۔ایڈ منسٹریٹیو سیکرٹری، ٹورازم ڈیپارٹمنٹ،ممبر۔ایڈ منسٹریٹیو سیکرٹری ہائوسنگ اینڈ پروٹوکول ڈیپارٹمنٹ،ممبر اور ایڈ منسٹریٹیو سیکرٹری کلچرل ڈیپارٹمنٹ ، ممبر شامل ہیں۔

ہندوستانی حکومت کی طرف سے جی 20کا سربراہ اجلاس مقبوضہ جموں وکشمیر میں منعقد کرانا جہاں ہندوستان کے لئے ایک امتحان ہے وہاں چین، سعودی عرب، ترکی اور انڈونیشیا کی سفارت کاری کا بھی امتحان ہے کیونکہ یہ چاروں ممالک مقبوضہ جموں وکشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کی مخالفت کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ہندوستانی حکومت کا یہ فیصلہ پاکستان کے لئے بھی ایک بڑا امتحان ہے کہ وہ جی20کے رکن ممالک کا سربراہ اجلاس متنازعہ ریاست جموں وکشمیر میں منعقد کرانے کے معاملے میں کس طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے؟ کیا پاکستان محض علامتی احتجاج تک محدود رہتا ہے یا اس معاملے پہ سخت ردعمل ظاہرکرتے ہوئے جی20کے رکن ممالک خاص طور پر چین، ترکی، سعودی عرب اور انڈو نیشیا سے اس معاملے میں سفارتی سطح پہ کس حد تک حمایت حاصل کر سکتا ہے۔
واپس کریں