دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز197ووٹ لے کر وزیراعلی پنجاب منتخب ہوگئے
No image لاہور16اپریل2022(کشیر رپورٹ) مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز وزیراعلی پنجاب منتخب ہوگئے ہیں، حمزہ شہباز کو 197 ووٹ پڑے جب کہ پرویز الہی کو کوئی ووٹ نہیں پڑا۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی زیر صدارت آج ساڑھے 11 بجے شروع ہونا تھا تاہم پہلے حکومتی اراکین کے اسمبلی ہال نہ پہنچنے کے باعث اجلاس تاخیر کا شکار ہو ا۔
پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور مار دھاڑ کے بعد ہونے والے وزیراعلی کے انتخاب میں تحریک انصاف اور ق لیگ کے بائیکاٹ کے بعد ایوان میں ووٹنگ کا عمل شروع ہوا۔اسمبلی اراکین کو ایوان میں بلانے کے لیے گھنٹیاں بجائی جاتی رہی ہیں لیکن سخت سکیورٹی انتظامات کے دعووں کے باوجود حکومتی خواتین اراکین اسمبلی میں اپنے ساتھ لوٹے بھی لے آئیں اور انہوں نے لوٹے لوٹے کے نعرے لگانا شروع کر دیے جس کے باعث ایوان میں شور شرابہ شروع ہوگیا۔بعد ازاں جب ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کے لیے ہال میں پہنچے تو حکومتی اراکین کی جانب سے ان کی جانب لوٹے اچھالے گئے اور ان کی ڈائس کا گھیرا کیا گیا، حکومتی اراکین کی جانب سے دوست محمد مزاری کو تھپڑ مارے گئے اور ان کے بال بھی نوچے گئے، سکیورٹی اسٹاف اور اپوزیشن اراکین نے ڈپٹی اسپیکر کو حکومتی اراکین سے بچایا جس کے بعد وہ واپس اپنے دفتر میں چلے گئے۔
اس موقع پر آئی جی پنجاب، پولیس کمانڈوز کے ہمراہ اسمبلی پہنچ گئے، پولیس اہلکاروں کے اسمبلی میں داخلے پر پی ٹی آئی ارکان نے احتجاج کیا،پولیس کی بھاری نفری ڈپٹی اسپیکر کے چیمبر میں بھی پہنچ گئی، بعد ازاں اسپیکر کے احتجاج پر پولیس کو اسمبلی لابی سے باہر نکال دیا گیا۔اینٹی رائیٹ فورس کے اہلکار پنجاب اسمبلی میں داخل ہوگئے اور اسپیکر ڈائس کا کنٹرول سنبھال لیا، مزاحمت کرنے والے 3 حکومتی ایم پی ایز کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔پولیس اہلکارپرانی بلڈنگ کے راستے پنجاب اسمبلی میں داخل ہوئے،پولیس نے ایوان کے اندر آپریشن کرتے ہوئے مردو خواتین ایم پی ایزکو اسپیکرڈائس سے ہٹایا اور اسپیکر ڈائس کا کنٹرول سنبھال لیا۔پولیس اہلکاروں نے بلٹ پروف جیکٹس پہن رکھی ہیں ،حکومتی ارکان اور پولیس میں جھگڑا بھی ہوا ، اس دوران 3 حکومتی ایم پی ایز کو حراست میں بھی لے لیا گیا، ان ارکان نے ڈپٹی اسپیکر پرتشدد بھی کیا تھا۔اس دوران اسمبلی کے سکیورٹی اسٹاف کی جانب سے ارکان اسمبلی کو ہی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔بڑی تعداد میں لیڈی پولیس اہلکاروں کو بھی اسمبلی کے اندر پہنچا دیا گیا ہے اور ایوان کی کارروائی آگے بڑھانے کے لیے ارکان کو بلانے کے لیے گھنٹیاں بھی بجائی گئیں تاہم ہنگامہ آرائی کے باعث اجلاس شروع نہ ہوسکا۔ایوان میں ہنگامہ آرائی کے دوران متعدد ارکان اسمبلی زخمی ہوگئے اور بعض کی طبیعت بگڑ گئی جنہیں فوری طبی امداد دی گئی۔وزارت اعلی کے امیدوار چوہدری پرویز الہی بھی ہنگامہ آرائی کے نرغے میں آگئے اور زخمی ہوگئے۔ہنگامہ آرائی کے دوران چوہدری پرویز الہی کو ایوان سے باہر نکال لیا گیا۔حکومتی اراکین نے آئی جی پنجاب پولیس کیخلاف تحریک استحقاق جمع کرادی، تحریک استحقاق میں کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں پولیس کیوں آئی ،پولیس کو ایوان کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی، پولیس کو ایوان میں لاکر ایوان کا تقدس پامال کیا گیا ہے، پولیس سے آئین اور پارلیمانی روایات پامال کرنے پر جواب طلب کیا جائے۔
پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی کے بعد دوبارہ شروع ہوا تاہم تحریک انصاف اور ق لیگ کے اراکین پنجاب اسمبلی سے واک آٹ کرگئے ہیں، ڈپٹی اسپیکر آفیشل باکس سے پولیس کی سکیورٹی میں اجلاس کی صدارت کرتے رہے۔ تحریک انصاف اور ق لیگ کے بائیکاٹ کے بعد قائد ایوان کے انتخاب کا عمل ہوا جس میں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد کے امیدوار حمزہ شہباز شریف 197 ووٹ لے کر نئے قائد ایوان منتخب ہوگئے، جب کہ پرویز الہی کو کوئی ووٹ نہیں پڑا۔وزارت اعلی کے لیے حمزہ شہباز مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار ہیں جبکہ چوہدری پرویز الہی پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے متفقہ امیدوار ہیں۔پنجاب اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 371 ہے اور وزیر اعلی بننے کے لیے 186 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

واپس کریں