دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہندوستانی فوج جعلی مقابلوں میں نہتے کشمیری نوجوانوں کو ہلاک کرنے کی کاروائیاں کرتی ہے، امریکہ کے سرکاری نشریاتی ادارے کی گواہی
No image سرینگر ( کشیر رپورٹ) ہندوستانی فوج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں نہتے نوجوانوں کو ظالمانہ طور پر جعلی مقابلوں میں ہلاک کرنے کی کاروائیوں کی معمول کی صورتحال کی باز گشت عالمی سطح پہ بھی گونج رہی ہے، ہندوستانی فوجی ہزاروں کی تعداد میں آپریشن کرتے ہوئے نہتے کشمیری نوجوانوں کو ہلاک کر کے ناچتے ہوئے جشن مناتے ہیں اور بعد میں معلوم ہو جاتا ہے کہ ہندوستانی فوجی کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں ہلاک کرنے کی کاروائیوں کو ایک معمول کے طور پر اپنا چکی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں قابض ہندوستانی فوج کے ایک افسر کے خلاف جنوبی ضلع شوپیاں میں جولائی 2020 میں ایک''آپریشن'' کے دوران تین نوجوانوں کو ہلاک کرنے کے واقعہ میں ملوث فوجی افسر کیپٹن بھوپندر سنگھ کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی ہے۔بھارتی فوج نے 18 جولائی 2020 میں کہا تھا کہ فوجی افسر نے ضلع شوپیاں کے امشی پورہ علاقے میں ''آپریشن'' کے دوران تین مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے۔ ہلاک کیے گئے تینوں افراد ان کے بقول غیرملکی باشندے لگ رہے تھے۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہلاک کیے گیے نوجوانوں کی عمریں 16 سے 25 سال کے درمیان تھیں اور وہ دراصل سرحدی ضلع راجوری سے امشی پورہ کے ایک میوہ باغ میں مزدوری کے لیے ایک دن قبل ہی پہنچے تھے۔ او ر وہ مزدوری سے حاصل رقم سے اپنی پڑھائی جاری رکھنا چاہتے تھے۔ان نوجوانوں کو ہلاک کیے جانے کے بعد پولیس نے ان کی لاشوں کو کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے گانٹہ مولہ کے علاقے کے ایک قبرستان میں دفن کردیا تھا۔ اس مقام پر عمومی طور پر حفاظتی دستوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک غیرملکی مبینہ عسکریت پسندوں کو دفنایا جاتا ہے۔پولیس نے اس وقت کہا تھا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیوں کہ ان مبینہ دہشت گردوں کی شناخت نہیں ہو سکی تھی اور ان کی لاشوں کو وصول کرنے کے لیے کوئی سامنے نہیں آیا تھا۔انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض سیاسی جماعتوں نے پولیس کے کردار کی بھی نکتہ چینی کی تھی۔ کیوں کہ پولیس نے ایک بیان میں ہلاک مبینہ عسکریت پسندوں کے زیرِاستعمال اسلحے کو ضبط کرنے کا دعوی کیا تھا۔

امریکہ کے سرکاری نشریاتی ادارے '' وائس آف امریکہ '' کے مطابق اس سے قبل 20 مارچ 2000 میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے ہندوستان کے دورہ کے موقع پر کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے علاقے چھٹی سنگھ پورہ میں مسلح افراد نے سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے 35 افراد کو ان کے گھروں سے نکال کر سڑک پر گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔بھارتی حکومت نے چھٹی سنگھ پورہ قتلِ عام کے لیے مسلمان مبینہ عسسکریت پسندوں کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا ۔ واقعے کے پانچ دن بعد بھارتی فوج اور کشمیر کی پولیس نے یہ دعوی کیا تھا کہ اننت ناگ ہی کے پہاڑی علاقے پتھری بل میں کی گئی ایک کارروائی کے دوراں چھٹی سنگھ پورہ قتلِ عام میں ملوث پانچ مبینہ دہشت گرد مارے گئے۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ مارے گئے تمام افراد غیرملکی تھے۔ بعد ازاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ مارے گئے پانچوں افراد مقامی تھے جنہیں فوج اور پولیس اننت نگر کے مختلف علاقوں سے زبردستی اپنے ساتھ لے گئی تھی اورپھر انہیں پتھری میں ایک سنسان جگہ پر لے جاکر ایک فرضی جھڑپ میں ہلاک کردیا تھا۔عام شہریوں کو اس مبینہ انکانٹر میں قتل کرنے پر احتجاج کیا گیا تھا جس پر سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ سے دس شہری ہلاک ہوگئے تھے۔بعد ازاں اس مبینہ انکانٹر میں ملوث بھارتی فوج کے بریگیڈیئر اجے سکسینہ، لیفٹننٹ کرنل بریجندر پرتاپ سنگھ، میجر سوربھ شرما، میجر امیت سکسینہ اور صوبیدار ادریس خان کے خلاف بھارت کے تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انوسٹیگیشن نے 2006میں عدالت میں فردِ جرم دائر کی تھی۔تاہم جنوری 2014میں بھارتی فوج نے اس کیس کویہ کہکر بند کردیا کہ ملزموں میں سے کسی ایک کے خلاف بھی الزامات کو ثابت نہیں کیا جاسکا ۔

پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی تھی جس نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ تینوں نوجوان مزدوری کرنے کے لیے 17 جولائی کو راجوری سے شوپیاں پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایک کمرہ کرایہ پر لیا تھا اور اسی شام اپنے گھر والوں کو فون پر مطلع کیا تھا کہ انہیں ا یک مقامی میوہ باغ میں کام مل گیا ہے اور وہ اگلے روز سے وہاں کام شروع کریں گے۔لیکن اس کے بعد ان کا اپنے گھر والوں سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔تینوں نوجوانوں کے گھر والوں نے پولیس اور صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ یہ سمجھے تھے کہ وادی کشمیر میں چوں کہ فون اور دوسری مواصلاتی سروسز اکثر بند ہو جاتی ہیں تو شاید ان کے عزیز ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔بعد ازاں ان نوجوانوں کی ہلاکت کی خبر سامنے آنے پر نوجوان محمد امتیاز، محمد ابرار اور ابرار احمد خان کے والدین اور دیگر رشتے داروں نے واقعے کی غیرجانبدارانہ عدالتی تحقیقات اور ملوث فوجیوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔پولیس نے تحقیقات مکمل کیں، جس کے بعد ملزمان کے خلاف فردِجرم عائد کی گئی۔ اس فرد جرم میں کہا گیا کہ کیپٹن بھوپندر سنگ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان نوجوانوں کو ہلاک کیا اور واقعے کے بارے میں اپنے اعلی افسران اور جموں وکشمیر پولیس کو غلط معلومات فراہم کیں۔اس کے علاوہ دو اور ملزمان مقامی باشندوں تابش نذیر اور اسپیشل پولیس افسر بلال احمد خان لون کے ساتھ مل کر ثبوت جان بوجھ کر تباہ کیے جس میں اس عمارت کو آگ لگانا بھی شامل تھا جس کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ ہلاک کیے جانے والے مبینہ عسکریت پسند اسے کمین گاہ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ تابش اور بلال دووں بھارتی فوج کے لیے مبینہ طور پر مخبر کا کام کرتے تھے۔پولیس چارج شیٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ان تینوں نے ایک مجرمانہ سازش کی تھی جس کا مقصد نقد انعامات حاصل کرنا تھا ۔اب فوج نے یہ اعلان کیا ہے کہ کیپٹن بھوپندر سنگھ کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔

بھارتی کشمیر میں گزشتہ 32 برسوں سے جاری شورش سے نمٹنے والی سیکیورٹی فورسز کے کئی اہل کاروں نے ترقی پانے کے لیے ماضی میں اس طرح کی کارروائیاں کی ہیں، البتہ حکام اس کی تردید کرتے ہیں۔خیال رہے کہ بھارتی فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں پر فرضی جھڑپوں میں لوگوں کو ہلاک کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ البتہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بھارتی فوج نیاپنے کسی افسر کے خلاف کورٹ مارشل کا باضابطہ اعلان کیا ہے۔یہ معاملہ دوسرے مشکوک واقعات ہی کی طرح انسانی حقوق کے کارکنان اور تنظیموں کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔ اس سلسلے میں حکومت اور ہندوستانی سیکیورٹی فورسز پر سخت تنقید کی جاتی ہے۔


واپس کریں