دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ماحولیاتی مہاجرین کی آبادکاری میں عجلت کی ضرورت

"جب زمین اپنوں کو بے دخل کر دے: ماحولیاتی مہاجرین، سیلابی تباہی اور ریاستی ذمہ داریاں"

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کا بحران دن بہ دن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ حالیہ مون سون بارشوں اور بھارت سے آنے والے دریائی سیلابی ریلوں نے جنوبی پنجاب، سندھ، اور خیبر پختونخوا کے متعدد علاقوں میں تباہی مچا دی ہے۔ ہزاروں گھر زیرِ آب آ چکے ہیں، کھڑی فصلیں برباد ہو چکی ہیں، مال مویشی بہہ گئے، اور عوام اپنی زمین، گھر اور روزگار سے محروم ہو کر کھلے آسمان تلے آ گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آج ماحولیاتی مہاجرین کی نئی شکل میں ابھر رہے ہیں — نہ ان کا جرم ہے، نہ ان کی حفاظت کی کوئی ضمانت۔

سیلاب: صرف پانی نہیں، ایک تباہ کن معاشی زخم

بھارت کی جانب سے بغیر اطلاع کے دریاؤں میں پانی چھوڑنا یا شدید بہاؤ کے وقت منہ بند کرنے کے عمل نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس بے قابو پانی کے نتیجے میں نہ صرف انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں بلکہ اربوں روپے کا پبلک سیکٹر انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے — سڑکیں، پل، اسکول، اسپتال، بجلی کے نظام، سب پانی میں بہہ رہے ہیں۔
مزید یہ کہ معیشت، جو پہلے ہی قرض، مہنگائی، اور زرعی بحران کا شکار ہے، اس بربادی کے بعد مزید پیچھے جا رہی ہے۔ فصلوں کی بربادی سے غذائی قلت کا خطرہ، اور مہاجرین کی صورت میں شہروں پر دباؤ، ریاستی مشینری کو مفلوج کر سکتا ہے۔

مسئلہ صرف قدرتی نہیں، انتظامی بھی ہے

افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم ہر سال ایک جیسے سیلابی منظرنامے کا شکار ہوتے ہیں، مگر نہ ہمارے پاس وارننگ سسٹمز بہتر ہیں، نہ ہی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت۔ بڑے ڈیم تو دہائیوں پر محیط منصوبے ہیں، مگر کم از کم چھوٹے ڈیم، واٹر سٹوریج یونٹس اور نہروں کی صفائی جیسے اقدامات تو ممکن ہیں — اگر سنجیدگی ہو۔
اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستوں پر بااثر افراد نے سوسائٹیاں، فارم ہاؤسز، اور ہاؤسنگ پروجیکٹس بنا لیے ہیں۔ یہ تجاوزات نہ صرف پانی کے راستے روکتے ہیں بلکہ بستیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان قبضہ مافیا کے خلاف آہنی ہاتھوں سے کارروائی کرے — ورنہ ہر سال سینکڑوں خاندان ماحولیاتی مہاجرین میں تبدیل ہوتے رہیں گے۔

اب کیا کرنا ہوگا؟ — عملی تجاویز

چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیمز کی تعمیر کو ہنگامی بنیادوں پر ترجیح دی جائے۔

پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستوں سے تجاوزات کا مکمل خاتمہ کیا جائے — چاہے وہ کسی بااثر شخصیت کی ملکیت ہی کیوں نہ ہوں۔

بھارت کے ساتھ دریاؤں کے پانی کے معاہدے پر ازسرنو نظرثانی کی جائے، اور عالمی سطح پر مسئلہ اجاگر کیا جائے۔

ماحولیاتی مہاجرین کے لیے مستقل پالیسی اور آبادکاری کے منصوبے بنائے جائیں۔

کمیونٹی لیول پر ایمرجنسی ریسپانس ٹیمیں تشکیل دی جائیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت میں مقامی لوگ فوری ردعمل دے سکیں۔

نتیجہ

یہ وقت سیاسی بیانات یا ہمدردی کے دعووں کا نہیں، عمل کا ہے۔ اگر ریاست نے ماحولیاتی مہاجرین، سیلابی تباہی، اور انفراسٹرکچر کی بربادی سے سیکھ کر مربوط اور پائیدار حکمت عملی نہ اپنائی، تو آنے والا ہر مون سون صرف بارش نہیں، تباہی، مہاجرت، بھوک، اور بے بسی لے کر آئے گا۔
پاکستان کے لیے ماحولیاتی تبدیلی اب ایک سادہ ماحولیاتی یا موسمیاتی مسئلہ نہیں — یہ بقاء کا سوال بن چکا ہے۔
واپس کریں