دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر میں طوائف الملوکی،اسمبلی میں بیٹھتے شرم آتی ہے،آزاد کشمیر میں سیاسی جماعتیں عوامی اعتماد کھو چکی ہیں۔ راجہ فاروق حیدر سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر
No image مظفرآباد ( پ ر)سابق وزیر اعظم آزاد کشمیرو مرکزی راہنما پاکستان مسلم لیگ ن راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں سیاسی جماعتیں بے اثر ہوکر عوامی اعتماد کھو چکیں، اس نظام اور ڈھانچے کو بچانے کا واحد حل نئے انتخابات ہیں ،آزادکشمیر میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ طوائف الملوکی ہی ہے،اہڈہاک ملازمین،ووڈ انڈسٹری،کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن سمیت سب ہڑتالوں پر ہیں،،بدقسمتی سے مہاجرین کی بارہ نشستیں ہمیشہ بگاڑ پیدا کرتی آئی ہیں اور حکومتیں بدلنے میں ان کا کلیدی کردار ررہا ہے،آزادکشمیر میں انتظامیہ مفلوج،اختیارات کا ارتکاز ایک جگہ ہے،سوشل پروٹیکشن ایکٹ ہم نے اپنے دور میں منظور کیا تھا جس کا تصور یہ تھا کہ ریاست بے سہارا افراد کی کفالت کریگی،ہم نے لائن آف کنٹرول پر شہید ہونے والے سویلینز کے خاندانوں کے لیے پینشن کا سلسلہ شروع کیا،آج حکومت بھی پی ٹی آئی کی اور اپوزیشن بھی پی ٹی آئی کی ہے بازار مصر لگا ہوا ہے اسمبلی میں آگے بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے تیسرا وزیراعظم آگیا ہے لیکن مظفرآباد ویران ہے اگر یہاں سے مسلہ ہے تو بھمبر،راولاکوٹ،سمیت کسی بھی جگہ بیٹھ جائیں مگر رہیں آزادکشمیر کے اندر ہی،وزرا کے پاس اختیار ہی نہیں وہ دریاے نیلم اور جہلم کی لہریں گنتے رہتے ہیں میں نے ان کے اختیار کی بات کی تو مجھ سے ناراض ہو گئے،وزیراعظم نائٹ کوچ ہیں جب لوگ سوتے ہیں تب یہ دفتر جاتے ہیں ایسے نظام کیسے چل سکتا ہے ان کی ذات سے مسلہ نہیں مگر یہ سیٹ اپ برقرار رہا تو خون سے لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ پھر آزادکشمیر کے موجودہ سٹیٹس کو شدید خطرات لاحق ہیں یہ قائم نہیں رہ سکتا۔،کفایت شعاری کے علمبردار وزیراعظم نے چار چار وزیراعظم ہائوس بناے ہوئے ہیں مظفرآباد میں سپیکر ہائوس،وزیراعظم ہائوس،کشمیر ہائوس میں سپیکر ہائوس وزیراعظم ہاو س ان کے زیر استعمال ہے جب میں نے کہا کہ اتنے کیوں رکھے تو انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہائو س میں ایجنسیوں نے کیمرے اور ریکاررڈرز لگاے ہوے ہیں جبکہ میں نے یہاں لاک لگایا ہوا ہے۔ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں بیٹھ جانے سے ریاست نہیں چل سکتی،افسوس ہے کہ عدلیہ کی بھی صورتحال ٹھیک نہیں،پاکستان گریز رحجانات پنپ رہے ہیں مگر کسی کو فکر نہیں نا اس کے لیے کوئی پالیسی نا لائحہ عمل ہے وزیراعظم علامہ جنوبی ہیں ان سے کوئی ذاتی مخاصمت نہیں اہڈہاک ملازمین کے حوالے سے مسلے کا ہمیشہ کے لیے مستقل حل ہم نے اپنے دور میں کر لیا تھا آئین کے تحت ایک دفعہ کسی شخص کو کوئی حق مل جاے تو واپس نہیں لیے جاسکتے اہڈہاک ملازمین کے چولہے بجھاکر خوش ہونے والوں پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے اپنا حق لینا پڑھ سکتا ہے اب موجودہ حکومت نے بھی یہی روایات ڈالی ہیں اہڈہاک ملازمین اپنے حق کے لیے جو بھی احتجاجی،دھرنے،لانگ مارچ کی کال دینگے ان کے ساتھ کھڑا ہونگا ہم نے کمیٹی میں بھی یہی کہا تھا۔
ان خیالات کااظہار انہوں نے اہڈہاک ملازمین کے احتجاجی دھرنے کے شرکا سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے کیااس موقع پر سابق وزیر ڈاکٹر مصطفی بشیر،سابق چیئرمین زاہد امین کاشف،ارم قریشی،معید ملک بھی ہمراہ تھے جبکہ احتجاجی دھرنے سے کرامت سبزواری،خالق رشید عباسی،راجہ غلام جیلانی،راجہ عطر علی خان نے بھی خطاب کیا۔ راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا کہ جس عمارت کی خشت اول ہی غلط رکھی گئی ہو وہ کبھی مظبوط اور پائیدار نہیں ہوسکتی،ایڈہاک ملازم سڑکوں پر ہیں،کنٹریکٹر دفاتر بند کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ترقیاتی کام ڈھپ ہیں کریش پلانٹ بند ہیں وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق اپنا کام چھوڑ کر ایکسین اور ایس ڈی او کا کام کررہے ہیں۔ 505کے قانون میں ترمیم بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔حکومت اپنی چوری چھپانے کے لیے ایسے قوانین کا اطلاق کرتی ہے اس قانون کے تحت سب سے پہلا مقدمہ مجھ پر درج کیا جائے۔شعور پر لاشعور غالب آجائے تو اس کی زندہ مثال وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق ہے جب ممبر اسمبلی وزیر بن جاتا ہے تو ایک حلقے کا نہیں بلکہ پورے آزاد کشمیر کا وزیر ہوتا ہے اب ان حالات میں وزیروں کو اپنے دفتر اور گاڑیوں سمیت درخواستوں پر منطوری دی جاتی ہے لکھنا چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ ان کو اوپر سے منظوری ملے گئی وہ آگے منظوری دیں گے۔
سابق وزیر اعظم آزادکشمیر نے کہا کہ دورہ برطانیہ کے دوران میں نے کمیونٹی کو یہ کہا ہے کہ برطانیہ میں 2024میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس میں تمام سٹیک ہولڈر کو اس کا حصہ بنا کر ہمیں ایک نقطہ پر اکھٹے ہونا چاہیے۔05اگست کے واقعہ کے بعد پاکستان کمزور موقف کے باعث کشمیریوں اور پاکستانیوں کا رشتہ کمزور ہوا ہے۔پاکستان کے ذمہ داران کو سوچنا چاہیے کہ کب یہ اعتماد کیسے بحال ہو گا میں نے اپریل 2024میں وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف کو ایک خط کے زریعے حقائق سے آگاہ کیا تھا۔پھر جائنٹ ایکشن کمیٹی نے آٹے اور بجلی پر احتجاج کیا تو وہی حقائق سامنے آئے۔پتہ نہیں میرا خط کسی نے پڑا یا ردی کی ٹوکری میں گیا آزاد کشمیر میں اس وقت افرتفری پھیلی ہوئی ہے عوام کو مختلف چکروں میں الجھا کر رکھا گیا ہے۔ایڈہاک ملازم احتجاج پر ہیں کنٹریکٹر ادائیگیاں نہ ہونے پر دفاتر کو تالہ بندی کیے ہوئے ہیں ترقیاتی عمل ٹھپ ہے کریش پلانٹ بندہیں۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے صوابدیدی فنڈز یہ کہ کر بند کیے کہ چوری ختم کررہے ہیں جبکہ انہی پیسوں سے غریب لوگوں کی مدد ہوتی تھی۔انہوں نے کہا کہ میری پارٹی کی اسمبلی میں 20سیٹیں نہیں کہ حکومت بنائیں اس کے باوجود میں نے اپنی مرکزی پارٹی کو یہ مشورہ ضرور دیا تھا کہ ہمیں حکومت سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔حکومت کا حصہ رہ کر جماعت کو نقصان ہو رہا ہے۔وزیر اعظم آزادکشمیر کہتے ہیں کہ سابقہ حکومت میں مافیاتھے وہ بتائیں کیا سردار ابراہیم خان مافیا تھے کیا مجاہد اول مافیا تھے کیا کے ایچ خورشید مافیا تھے کیا سکندر حیات مافیا تھے کیا چوہدری عبدالمجید مافیاتھے یا میں مافیا تھا،کون مافیا تھا وہ بتائیں؟انہوں نے صحافیوں سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ آزادکشمیر کے سیاسی جماعتوں کو عملا بے اثر کر دیا گیا ہے ایک خلا پید ا ہوا ہے جسے کوئی اور پر کر رہا ہے۔جس کا ایجنڈ ا ہی کچھ اور ہے اسرائیل اور بھارت کو گٹھ جوڑ ہے مسلمانوں سے کہتا ہو ں کہ حزب اللہ کو کوئی شعیہ نہ سمجھے اور حما س کو سنی نہ سمجھے وہ کفر کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ہمیں ان کے ساتھ کھڑا ہو کر اخلاقی،سفارتی اور ہر قسم کی مدد کرنی چایئے۔اسرائیل کہ رہا ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ کو مسمار کرئے گا ہمیں اس وقت میں مسلکی اختلافات کو بالائے تاق رکھتے ہوئے مسلمانیت کی بنا پر ایک ہونا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ میں اس موقع پر اسٹبلشمنٹ اور سیکورٹی اداروں کو کہنا چاہتا ہو ں کہ وہ کویہ ہوش کے ناخن لیں ہم کن مسائل کا شکار ہیں اور وہ کیا کررہے ہیں ملک پاکستان تو ہم سب ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین کی بارہ نشستیں ہمیشہ بگاڑ پیدا کرتی ہیں اور حکومتیں بدلنے میں ان کا کلیدی کردار رہتا ہے ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ زباں بندی کے قوانین لانے پر حکومتی موقف کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں پہلے ڈی فارمیشن قانون پھر سوشل میڈیا مانیٹرنگ کمیٹیاں اور اب 505 میں آرڈینینس کے ذریعے ترمیم کرکہ تنقید کرنے کو جرم قرار دینا انسانی معاشروں کی روایات کے خلاف اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے حکومت اس قانون کے تحت پہلا پرچہ مجھ پر درج کرے شعور پر لاشعور غالب آجاے تو اس کی زندہ مثال چوہدری انوار الحق ہیں۔


واپس کریں