دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بھارت کے ایٹمی مواد کی سمگلنگ کا سکینڈل،بھارتی ایٹمی پروگرام کی ناقص سیکورٹی عالمی امن و سلامتی کے لئے سنگین خطرہ بن گئی
No image نئی دہلی ( کشیر رپورٹ)بھارت کے ایٹمی مواد کی سمگلنگ کا مزید ایک سکینڈل سامنے آیا ہے جس سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی ایٹمی مواد عالمی بلیک منڈی میں فروخت ہو رہا ہے اور اس سے یہ سنگین خطرہ پیدا ہوا ہے کہ بھارت کا ایٹمی مواد دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔ ایٹمی مواد کی فروخت کے اس بھارتی سکینڈل کے سامنے آنے سے بھارت کے ایٹمی پروگرام کی سکیورٹی پہ کئی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں جس سے بھارت ایٹمی پروگرام عالمی امن کے لئے ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں اور عالمی طاقتوں کو بھارت کے ایٹمی مواد کے اس سکینڈل کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے کیونکہ بھارت کا ایٹمی پروگرام دنیا کے مختلف خطوں کے علاوہ عالمی امن کے لئے بھی ایک سنگین خطرے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس بات کے بھی اشارے مل رے ہیں کہ بھارت میں ایٹمی مواد کی چوری اور سمگلنگ میں بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث ہیں اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھارت کے ایٹمی مواد کو عالمی بلیک مارکیٹ کے ذریعے دہشت گرد گروپوں کو فروخت کر کے کسی خطرناک منصوبے پہ عمل پیرا ہیں۔

تفصیلات کے مطابق 10 اگست کو بھارتی ریاست بہار کے گوپال گنج سے پولیس نے روٹین کی کارروائی میں تین سمگلرز کو گرفتار کیا، مگر ان سمگلرز کے قبضے سے جو سامان برآمد ہوا اس نے دنیا بھر کی سیکورٹی تنظیموں کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ ان کے پاس سے کیلیفورنیم نام کا نایاب تابکار مادہ برآمد ہوا جس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں 850 کروڑ بھارتی روپے ہے۔ پکڑے جانے والوں میں لعل پرساد، چندن گپتا اور چندن رام شامل ہیں۔ اتنے حساس مواد کی تین معمولی سمگلرز کے پاس موجودگی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بھارتی نیوکلیئر پروگرام برائے فروخت بن چکا ہے۔

اس سے قبل 12 جولائی 2024 کو بھارتی سیکورٹی فورسز نے ریاست اتراکھنڈ کے دارالحکومت دہرادون کے تھانہ راجپور کے علاقے میں ایک فلیٹ پر چھاپہ مارا۔ اندر موجود پانچ افراد سے کثیر تعداد میں خطرناک ریڈیو ایکٹیو میٹیریل یعنی جوہری مواد برآمد ہوا۔ یہ مواد اتنا زیادہ تھا کہ مخصوص بڑے بکسوں میں رکھا گیا تھا۔ تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ یہ جوہری مواد ممبئی میں قائم بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر یعنی BARC کا تیار کردہ ہے۔ حراست میں لئے گئے پانچ افراد میں آگرہ کا سمت پاٹھک، سہارنپور کا ابھیشک جین و دیگر شامل ہیں۔ عام وارداتیوں سے اتنی بڑی تعداد میں جوہری مواد کی برآمدگی پر دنیا بھر کی تنظیمیں ہل کر رہ گئی ہیں۔

بھارت میں یورینیم چوری کی یہ کوئی پہلی واردات نہیں، ماضی قریب میں بھی بھارت میں یورینیم یاتابکار مادے کی چوری کے متعدد واقعات رونما ہوئے جو بھارت میں جوہری مواد کے بلیک مارکیٹ کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔بھارتی پولیس نے 2008 میں شمال مشرقی ریاست میگھالیہ میں یورینیم کی اسمگلنگ کے الزام میں پانچ افراد کو گرفتار کیا۔بھارتی حکام نے 2021 میں جھارکنڈ میں 4 لوگوں سے 6.4 کلوگرام یورینیم برآمد کیا۔ مہاراشٹرا میں 7 کلوگرام یورینیم ضبط کی گئی جس کی مالیت 573 ملین ڈالر تھی26 اگست 2021 کو کولکتہ میں ایک انتہائی تابکار اور زہریلے مادے والی قسم کی کل 250 کلو گرام یورینیم ضبط کی گئی۔دسمبر 2006 میں ضلع رام گڑھ کے علاقے راجرپا کے ایک تحقیقی مرکز سے تابکار مواد سے بھرا ایک کنٹینر چوری ہو گیا جسے آج تک برآمد نہیں کیا جا سکا۔

انڈین انوائرامنٹل پورٹل کے مطابق انڈین اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ کی سالانہ رپورٹس کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت میں 2001 سے تابکاری ماخذ کے نقصان، چوری یا گم ہوجانے کے 18 واقعات رونما ہو چکے ہیں۔یہ واقعات الگ تھلگ نہیں ہیں کیونکہ بھارت میں یورینیم کی تجارت کے لیے باقاعدہ طور پر بلیک مارکیٹ چل رہی ہے۔ افزودگی کے مواد کی چوری اس تاثر کو مضبوط کرتی ہے کہ بھارت کے سکیورٹی میکنزم اور نیوکلیئر ڈاکٹرائن میں سنگین خامیاں ہیں جو عالمی امن و سلامتی کے لئے سنگین خطرے کے طور پر سامنے آئی ہیں۔

واپس کریں