دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر کے حالات سے متعلق سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کا وسیع مشاورت کا اعلان
No image مظفرآباد( پ ر)سابق وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے بنیادی حقوق کے حوالے سے عوامی تحریک کے نتیجہ میں ریاستی افق پر پیدا ہونے والے حالات پر مشاورت کے لیے عوام کے ساتھ براہ راست ریاست گیر مکالمہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا آغاز چکوٹھی سے ہو گا، تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے صاحب الرائے افراد، سیاسی زعما اور دانشوروں کی آئندہ ماہ گول میز کانفرنس بلانے کا بھی فیصلہ، یہاں میڈیا سے خصوصی بات چیت کے دوران سابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ آزادکشمیر شدید مالی بحران کا شکار ہے اور بدقسمتی سے ہمارا ریاستی نظام موجودہ ڈھانچے کا بوجھ زیادہ عرصہ برداشت نہیں کرسکتا یہ کسی وقت بھی بیٹھ جائے گا، مالی بحران پر قابو پانے کیلئے 50 ہزارملازمین کو فارغ کرنا پڑے گا جو بظاہر ناممکن ہے، ترقیاتی کاموں، ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی سمیت کئی دیگر سہولیات کی دستیابی ناممکن ہو جائے گی، اللوں تللوں نے ریاستی ڈھانچے پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں، موجودہ خرابی کی بنیاد 2021کے عام انتخابات میں مداخلت کے ذریعے رکھی گئی اور ایسے لوگوں کو ایک مخصوص جماعت میں شامل کرکے الیکشن جتوایا گیاجو عوام کے اندر موجود ہی نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ دو سال کے دوران تین وزیراعظم تبدیل ہوئے، موجودہ صورتحال کے مطابق تین جماعتوں کے ممبران اسمبلی کابینہ اور حکومت کا حصہ ہیں جن کے مابین ہم آہنگی نہیں، وزیراعظم تنہا پرواز کے قائل ہیں اور جس انداز میں حکومت چلائی جا رہی ہے یہ ریاستی نظام اور ڈھانچے کیلئے انتہائی خطرناک ہے، موجودہ صورتحال کا تقاضاہے کہ باشعور شہری سوچ بچار کریں، سیاسی فیصلوں کو انتظامی اقدامات کے ذریعے تبدیل نہیں کیاجاسکتا، آزادکشمیر کی سیاست میں متوسط طبقہ سرگرم ہے یہاں اشرافیہ کا کوئی وجود نہیں اور غیر طبقاتی نظام قائم ہے، مظفرآباد اور پونچھ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی زعما اور اکابرین کا تعلق متوسط طبقے سے ہے جب کہ میرپور ڈویژن سے سیاست کرنے والے لوگوں کو بیرون ملک مقیم ان کے عزیزواقارب کی اعانت سے ہی سیاست میں رہنا ممکن ہے، راجہ فاروق حیدر خان کا مزید کہنا تھا کہ ایک سابق انسپکٹر جنرل پولیس نے ایک بار انکشاف کیا تھا کہ آزادکشمیر کا تمام بجٹ سندھ پولیس کی ایک سال کی رشوت ستانی سے بھی کم ہے، ایک طرف کفایت شعاری کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور ساتھ ایک اور وزیر کابینہ میں لے لیا گیاہے جس کی کوئی جوازیت نہیں، قول و فعل میں یکسانیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، عوامی سطح پر سرکاری ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک مناسب طرز عمل نہیں ہے، سرکاری گاڑیوں کو روکنا لوگوں کا کام نہیں بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکاری گاڑیوں کا ناجائز استعمال روکے، ملازمین دفتری اوقات کے بعد اور بیرون آزادکشمیر سفر کیلئے سرکاری گاڑی میں ڈیوٹی سلپ ساتھ رکھیں، ڈنڈا بردار آزادکشمیر میں کسی بھی حادثہ کاموجب بن سکتے ہیں، آزادکشمیر میں امن وامان ہماری وجہ سے بحال ہے، پیدا ہونے والے موجودہ حالات کی نشاندہی بذریعہ مکتوب وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کو کر دی تھی، یہ میرا فرض تھا کہ آزادکشمیر میں موجود ناراضگی اور مایوسی کے حوالے سے پاکستان حکومت کے ذمہ داران کو آگاہ کروں،جو واقعات رونما ہوئے اپنے مکتوب میں خدشات بتا دیئے تھے، راجہ فاروق حیدر خا ن نے مزید کہا کہ تاجر برادری کے بڑے مطالبات پورے ہو چکے ہیں اب اس ریاست کے اندر امن و امان کی طرف توجہ دیں، امن قائم ہوگا تو ان کے کاروبار چلیں گے، 27مئی کی ہڑتال کسی سانحہ کا باعث بن سکتی ہے، منظور شدہ مطالبات پر عملدرآمد کیلئے حکومتی ذمہ داران کے ساتھ مل بیٹھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آزادکشمیر سے سفر کرنے والوں سے زبردستی نعرے لگوانا کسی صورت درست نہیں، محبت دل میں ہوتی ہے یہ نعروں کے ذریعے نہ تو داخل کی جاسکتی ہے نہ تو ختم کی جا سکتی ہے، ریلیوں سے مسائل حل نہیں ہوتے،واحد حل مکالمہ ہے، اور مکالمہ کیلئے سیاسی قیادت کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہیے،درد دل رکھنے والے افراد مکالمہ مہم میں شامل ہو ں، ذاتی حیثیت سے چکوٹھی کے مقام سے ریاست گیر عوامی مکالمہ مہم کا آغاز کررہا ہوں جس میں بنیادی حقوق سمیت موجودہ نظام کو لاحق خطرات، عوام کے اندر پائی جانے والی ناراضگی،مایوسی اور مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے عام آدمی کی رائے حاصل کریں گے،طاقت کا استعمال کسی فریق کیلئے مناسب نہیں اور نہ ہی یہ کسی کے مفاد میں ہے، حالیہ تحریک نے شکوک و شبات پیدا کیے ہیں، کشمیری عوام کے جذبہ حب الوطنی اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط اور غیر متزلزل وابستگی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے،ہندوستان آزادکشمیر کی موجودہ صورتحال سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا، کیوں کہ ابھی وہ لوگ زندہ ہیں جو پاکستان کے نام پر مر مٹنے والے ہیں، راجہ فارو ق حیدر خان نے پونچھ کے غیور عوام سے اپیل کی ہے کہ آپ اپنے بزرگوں کی سیاسی و عسکری محاذ پر دی گئی قربانیوں پر کوئی حرف نہ آنے دیں، آزادکشمیر میں سیاسی استحکام کا واحد راستہ غیر جانبداراور شفاف الیکشن ہیں جن کا فوری انعقاد ہونا چاہیے،راجہ فاروق حیدر خان نے سیاسی استحکام کے لیے تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز میں تجارتی مراکز سمیت ہر مکتبہ فکر کے ساتھ رابطہ مہم کے آغاز کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ اس وقت ریاست کو بچانا اولین ترجیح ہے،ریاست ہو گی توسیاست بھی چلتی رہے گی،45لاکھ لوگوں کے لیے بنایا گیا موجودہ ڈھانچہ اگر ختم ہو گیا تو مسئلہ کشمیر بھی اس کے ساتھ ختم ہو جائے گا، آٹا اور بجلی بنیادی حقوق سے تعلق رکھتے ہیں انہیں قومی معاملات سے نہ جوڑا جائے آزادکشمیر کا مالیاتی نظام اس صلاحیت کا حامل نہیں کہ یہ ریاستی نظام کا بوجھ مزید برداشت کر سکے اس حوالے سے صاحب الرائے افراد مل بیٹھ کر غور و فکر کریں کہ ہم نے اب تک کیا کھویا اور کیا پایا ہے، ذاتی حیثیت میں صاحب الرائے افراد کی گول میز کانفرنس کی میزبانی کیلئے تیار ہوں،مکالمے اور گول میز کانفرنس کے ذریعے ریاست، نظام اور گورننس سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر سیر حاصل مشاورت ممکن ہو گی، سابق وزیراعظم نے 8 سے 13مئی کے دوران پرتشدد واقعات میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ لواحقین کے ساتھ تعزیت کیلئے بھی جائیں گے اور ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں، فاروق حیدر خان نے کہا کہ ہم افواج پاکستان کو یقین دلاتے ہیں کہ اگر ہندوستان نے سیز فائر لائن پر کوئی جارحیت کی یاکوئی بزدلانہ حرکت کی تو ریاستی عوام حسب سابق مسلح افواج کی پشت پر ہوں گے، اس حوالے سے کوئی ابہام باقی نہیں رہنا چاہیے، کشمیری ہندوستان سے آزادی کیلئے گزشتہ 76سال سے جدوجہد کر رہے ہیں اس تحریک کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے،انہوں نے دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ ان کی کسی کے ساتھ ذاتی رنجش نہیں، اصلاح احوال کیلئے ہمیشہ مثبت تجاویز دیں مگر شومئی قسمت ہماری تجاویز کو کسی نے مناسب نہیں سمجھا اور نہ ہی ان پر غور کی ضرورت محسوس کی، ایک سوال کے جواب میں فاروق حیدر نے کہا کہ آزادکشمیر کے عبوری آئین ایکٹ74 میں کی جانے والی 13ویں ترمیم میں واضح کیا گیا ہے کہ ریاستی وسائل پر پہلا حق ریاستی عوام کا ہے،ریاستی وسائل آزادکشمیر کے عوام پر ہی خرچ ہوں گے، ایک اور سوال پر راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ پیدا شدہ موجودہ حالات اچانک نہیں بلکہ یہ گڈ گورننس کے حوالے سے حکومتی ناکامی پر عوامی ناراضگی کا کھلا اظہار ہے جس کی بنیادیں بہت پہلے رکھی گئیں، صورتحال کا تقاضا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اپنی ذمہ داریوں کااحساس کریں اور اپنی اپنی غلطیوں کا بھی اپنی سطح پر ازالہ ممکن بنائیں،

واپس کریں