دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بلوچستان میں ایرانی حملے کے بعد پاکستان کا ایران میںBLAکے سات ٹھکانوں پہ حملہ، امریکہ ، چین اور ہندوستان کا ردعمل
No image اسلام آباد( کشیر رپورٹ)ایران کی طرف سے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں میزائیل اور ڈرون حملے کے بعد پاکستان کی طرف سے ایران میں مقیم بلوچ دہشت گردوں کے سات ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ہندوستانی میڈیا کے مطابق پاکستان نے ایران میں دہشت گرد تنظیم ' بی ایل اے' کے سات ٹھکانوں کو نشانہ بناجس میں سات افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ ہندوستانی میڈیا نے پاکستان کے حملے کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا۔یہ بات ایران کے ایک مقامی اہلکار نے ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتائی۔ ایرانی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے اپنی سرحد پر فوج کی تعیناتی میں اچانک اضافہ کر دیا ہے۔ایران نے پاکستان کی جانب سے جوابی حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے حوالے سے ایران کے سرکاری ٹی وی نے کہا ہے کہ ایران نے پاکستان کی جانب سے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ فوری وضاحت کرے۔پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کی اس صورتحال پہ امریکہ ، چین اور ہندوستان نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

امریکہ نے ایران کے حملے کو غلط قرار دیا ہے۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ ایران نے حالیہ دنوں میں اپنے تین ہمسایہ ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔امریکہ نے ایران کی جانب سے پاکستان میں کیے گئے فضائی حملے کی مذمت کی ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں ہم نے ایران کو پاکستان، عراق اور شام کی خود مختار سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے دیکھا ہے، اس لیے ہم ایران کی جانب سے کیے گئے فضائی حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ چین نے پاکستان اور ایران دونوں سے کہا کہ وہ کشیدگی نہ بڑھائیں کیونکہ اس سے دونوں ممالک کو نقصان ہوگا۔ پاکستان اور ایران دونوں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے رکن ہیں اور چین کے قریبی تجارتی شراکت دار ہیں۔

ہندوستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاملہ ایران اور پاکستان کے درمیان ہے۔ دہشت گردی کے تئیں ہندوستان کی پالیسی زیرو ٹالرنس ہے اور ہم اپنے دفاع میں اٹھائے گئے اقدامات کو سمجھتے ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ اگر کوئی ملک اپنی حفاظت کے لیے کارروائی کرتا ہے تو ہندوستان اس کی صورتحال کو سمجھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک ہماری رائے کا تعلق ہے تو ہم کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ دہشت گردی کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

پاکستان نے منگل کی رات دیر گئے ایران میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ میڈیا رپورٹس میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ حملہ ایران کے علاقے سراوان میں علیحدگی پسند تنظیم کے 7 ٹھکانوں پر کیا گیا ہے۔ اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC یا ایرانی فوج) نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب بلوچستان میں دہشت گرد تنظیم جیش العدل کے ٹھکانوں پر میزائلوں اور ڈرونز سے حملہ کیا تھا۔ اس کے چند گھنٹے بعد ہی پاکستان کی وزارت خارجہ نے رات ہی میں ایک بیان جاری کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ اس واقعے کے بعد پاکستان میں زبردست سیاسی اور فوجی مشقیں دیکھنے میں آئیں۔ ملاقاتوں کا سلسلہ رات بھر جاری رہا۔ پاک فوج کے سربراہ عاصم منیر اور نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے فون پر بات کی۔ اس کے بعد راولپنڈی میں آرمی کمانڈرز کا اجلاس ہوا۔ بدھ کی سہ پہر وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ہم نے تہران میں موجود اپنے سفیر کو فوری طور پر وطن واپس آنے کو کہا ۔ پاکستان نے ایرانی سفیر کو بھی ملک چھوڑنے کو کہا ہے۔ تاہم اس وقت ایران کے سفیر اپنے ملک میں موجود ہیں۔ ایران نے اشتعال انگیز کارروائی کی ہے۔ ہم اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ ایران نے بھی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ جس کے خلاف اقوام متحدہ میں شکایت درج کروائی جائے گی۔ ایران کو یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان جواب دینے کی صلاحیت اور حق دونوں رکھتا ہے۔ اس کی ذمہ داری حکومت ایران پر ہوگی۔ ہم نے ایران کے ساتھ جاری ہر قسم اور سطح کے مذاکرات کو روکنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ حملوں کے بعد ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے پاکستانی وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے فون پر بات کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ حملہ ایران کی دہشت گرد تنظیم پر کیا گیا تھا۔ اس میں پاکستان کا کوئی شہری زخمی نہیں ہوا۔ اس پر جیلانی نے کہا تھا کہ کسی بھی ملک کو اس طرح خطر ے والے راستے پر نہیں چلنا چاہیے۔ پاکستان کو ایران کے حملے کا جواب دینے کا پورا حق ہے۔
ددریں اثناء ایرانی خبر رساں ایجنسی IRNA کے مطابق، ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک رکن کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے متصل ملک کے شورش زدہ جنوب مشرقی صوبے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔

برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے جمعرات کی صبح ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں اب تک نو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ’جمعرات (18 جنوری) کی صبح پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے مخصوس ٹھکانوں کے خلاف انتہائی مربوط فوجی حملوں کا آغاز کیا۔ انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر مبنی اس آپریشن کے دوران متعدد دہشتگرد مارے گئے ہیں۔‘ یاد رہے کہ یہ کارروائی ایران کی جانب سے منگل کی رات پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے ’سبز کوہ‘ میں شدت پسند تنظیم ’جیش العدل‘ کے مبینہ ٹھکانوں پر ایرانی فورسز کے حملوں کے 36 گھنٹوں کے اندر کی گئی ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق ایران کی جانب سے کیے جانے والے حملے میں دو بچے ہلاک جبکہ تین بچیاں زخمی ہوئی تھیں۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ، آئی ایس پی آر، کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 18 جنوری کو علی الصبح ایران کے اندر کارروائی کرتے ہوئے بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اس حملے کا ہدف وہ عناصر تھے جو پاکستان کے اندر دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث تھے۔شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اس کارروائی کو ’آپریشن مرگ بر سرمچار‘ کا کوڈ نام دیا گیا ہے اور انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی ہے۔’مرگ بر سرمچار‘ فارسی کا جملہ ہے جس کا لفظی مطلب ’سرمچاروں کی موت‘ ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے منسلک افراد اپنے لیے ’سرمچار‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب براہوی زبان میں ’بہادر‘ اور ’گوریلا‘ کے بھی ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق اس کارروائی میں خودکش ڈرون، راکٹ، میزائل اور گولہ بارود استعمال کیے گئے جبکہ ’کولیٹرل ڈیمج‘ سے بچنے کے انتہائی احتیاط برتی گئی۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ایران میں نشانہ بنائے جانے والے ٹھکانے بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی تنظیموں سے منسلک دوستا عرف چیئرمین، بجر عرف سوغات، ساہل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وزی اور دیگر دہشتگردوں کے زیر استعمال تھے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کے خلاف تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی فوج ہمہ وقت تیار ہے۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ان حملوں میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ’دہشتگردوں‘ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

سیستان اور بلوچستان کے ڈپٹی سیکیورٹی گورنر علی رضا مرہماتی نے ’ایران ٹی وی‘ کو بتایا ہے کہ یہ حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح 04:05 بجے کیا گیا جس میں ایران کے سراوان شہر کے ایک سرحدی گاؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ارنا نیوز کے مطابق سراوان کا علاقہ ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے صدر مقام زاہدان سے 347 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے جس کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے۔سراوان ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کا صدر مقام ہے جو کہ ایرانی دارالحکومت تہران سے تقریباً 18 سو کلومیٹر دور پاکستان اور ایران کے تافتان بارڈر سے 283 کلومیٹر دور واقع ہے۔
ے صوبے بلوچستان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں متعدد بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں گذشتہ کئی دہائیوں سے متحرک ہیں اور ان تنظیموں نے ماضی میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز، پولیس اور اہم تنصیبات پر کئی مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ان تنظیموں میں دو بڑے نام بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل اف) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ہیں۔ بی ایل ایف کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ جبکہ بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب ہیں۔پاکستانی حکام کی جانب سے گذشتہ کئی برسوں سے یہ دعوی کیا جاتا رہا تھا کہ ان علیحدگی پسند تنظیموں سے جُڑے عسکریت پسند ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
واپس کریں