دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزادکشمیر اسمبلی میں تھرڈ پارٹی ایکٹ کے خاتمے کا بل پیش
No image مظفر آباد (رپورٹ۔راجہ محمد وسیم خان ) روزگار آزادکشمیر کا سب سے بڑا مسلہ ہے اور کوئی مقامی صنعت نا ہونے کے باعث ہر آنے والی حکومت کا سارا زور سرکاری محکمہ جات پر رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام محکمہ جات کا نوے فیصد سے زائد بجٹ صرف تنخواہوں اور مراعات کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے ماسواے ایک دو کے جو ترقیاتی امور کی انجام دہی کرتے ہیں بڑھتے ملازمتوں کے حجم نے آزادکشمیر کے میزانیہ میں انتظامی امور کے لیے مختص بجٹ کل بجٹ کا تقریبا نوے فیصد تک پہنچ گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہر سال ریٹائرڈ ہونے والے اور پہلے سے ریٹائرڈ شدہ ملازمین کی پینشن بھی ایک بڑا درد سر بن چکا ہے جبکہ آمدنی میں اس حساب سے اضافہ نا ہونے کے باعث بجٹ انتہائی غیر متوازن ہورہا ہے اور ماہرین کے مطابق اگلے کچھ سالوں بعد حکومت کل آمدن کا نصف سے زیادہ پینشن میں خرچ کریگی ۔
میرٹ پر سرکاری ملازمت نا ملنے اور یہ اختیار سیاست دانوں کے پاس ہونے سے ریاست میں جہاں پہلے ہی بے روزگاری کے عفریت نے آسمان اٹھا رکھا ہے میں بے چینی پھیلے گی وہیں پڑھے لکھے باصلاحیت غریب نوجوانوں پر سرکار کے دروازے بند ہونے سے وہ ریاست سے مزید متنفر ہونگے دوسرا جو زیادہ ہوشیار ہیں وہ سیاست دانوں کے دم چھلے بن کر اپنا نمبر آگے کرنے میں ساری صلاحیت صرف کرینگے اور یہی لوگ ہر آنے والی حکومت کا بھی حصہ بننے کے لیے وفاداری تبدیل کرتے رہے ہیں جس کی مثال اسلام آباد کی ہر حکومت کا آزادکشمیر میں بھی حکومت بنانا ہے یہ اب آٹھ سے دس ہزار ہر حلقے کا ووٹر ہوا کے رخ کے ساتھ پھر بدلے گا
مسلم لیگ ن کی حکومت نے ایک طویل المدتی پالیسی کا آغاز کرتے ہوے پہلے محکمہ تعلیم سے اس کا آغاز کیا پانچ سالوں میں کل بھرتی ہونے والوں میں سے 65 فیصد این *ٹی ایس اور پی ایس سی ہے ذریعے بھرتی ہوے اب دوسرے مرحلے میں دیگر محکمہ جات کے لیے بھی قانون بنا دیا تھا اس سے نا صرف نوجوانوں کو میرٹ پر روزگار کے مواقع ملتے بلکہ درمیانے درجے کے نوجوان جو لاکھوں میں میٹرک ایف اے بی اے کر کے سفارش کے چکر میں روزگار کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں کو بھی اپنے مستقبل کے لیے کوئی کام کرنے کا حوصلہ ملتا اور وہ محنت کرتے یاد رہے کہ اگلے دو سالوں میں کل ملاکر بھی آزادکشمیر میں 5 ہزار آسامیاں دستیاب نہیں ہونگی جو اوسطا کوٹہ سسٹم کے تحت کریں تو فی حلقہ ساٹھ سے ستر بنتی ہیں* جبکہ اس سے زیادہ امیدوار ایک بڑے وارڈ یا گاوں میں موجود ہیں اس نظام کی بحالی سے منتخبہ ایک ایسی قبر پر سے پتھر ہٹا رہی ہے جس میں اسے ہٹانے والے کے علاوہ کسی نے نہیں جانا لیکن اس کے مضمرات آنے والی نسلوں اور قومی مفادات پر انتہائی سنگین پڑینگے ، یہاں فکر کس کو ہے۔
واپس کریں