دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
چیف جسٹس عطا بندیال کے دور میں ایسے فیصلے کئے گئے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، ان فیصلوں کو تاریخ اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرے گی۔چیف جسٹس بندیال کی الوداعی تقریب میں وائس چیئرمین بار ہارون الرشید کی سخت تنقید
No image اسلام آباد( کشیر رپورٹ) جسٹس قاضی فائز عیسی17ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔اس وقت کے چیف جسٹس عطا بندیال چیف جسٹس آف پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے الوداعی تقریب میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئر مین ہارون الرشید نے اپنے خطاب میں چیف جسٹس عطا بندیال پر سخت تنقید کی۔ہارون الرشید نے نے کہا کہ کئی بار توجہ دلانے کے باوجود سپریم کورٹ میں زیر التوا 60ہزار مقدمات کے بارے میں کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور نہ ہی کوئی شفاف نظام وضع کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اعلی عدلیہ نے وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم سے کبھی مشاورت نہیں کی اور ملاقات کی کوشش پہ ہمیشہ یہی جواب دیا گیا کہ ہم سپریم کورٹ بار سے مکمل رابطے میں ہیں لہذا ملاقات کی کوئی ضرورت نہیں اور جب کھلی عدالت میں ہم نے اور سابق صدور نے اپنا موقف پیش کیا تو اسے انتہائی حقارت سے رد کر دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ مقدمے کی سماعت پہ ایسے ریمارکس ہرگز نہ دیئے جائیں کہ شنوائی سے پہلے ہی مقدمے کا فیصلہ معلوم ہو جائے اور کسی بھی وکیل کو اپنا مقدمہ پیش کرنے کی اجازت ہونی چاہئے نہ کہ صرف حکم زیر اپیل کو پڑھوا کر مقدمے کا فیصلہ کر دیا جائے۔
وائس چیئرمین ہارون الرشید نے کہا کہ جناب چیف جسٹس صاحب، آپ کے دور میں ایسے فیصلے کئے گئے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور ہم انتہائی کرب کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان فیصلوں کو تاریخ کبھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں طویل عرصے سے آئین کے آرٹیکل175(3)کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے سرکاری افسران کو سپریم کورٹ کا رجسٹرار تعینات کیا جاتا رہا ہے اور یہ تسلسل اب تک قائم ہے۔ہائیکورٹس میں رجسٹرار ہمیشہ سیشن جج ک ومقرر کیا جاتا ہے جبکہ سپریم کورٹ میں الٹی گنگا بہتی ہے جہاں سرکاری افسران جن کو عدالتی امور کا کچھ پتہ نہیں ہوتا، کو رجسٹرار مقرر کیا جاتا ہے۔سپریم کورٹ میں عرصہ دراز سے یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ مقدمات کو دیکھ کر مخصوص ججز کا چنائو ہوتا ہے جن کو حرف عام میں آج کل ہم خیال ججز کہا جاتا ہے۔ایسے بنچ کی تشکیل سے ہی وکلاء اور عوام کو معلوم ہو جاتا ہے کہ مقدمے کا فیصلہ کیا ہو گا۔
وائس چیئرمین ہارون الرشید نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل آئین کے تحت ہوئی ہے جس میں مشاورت کا پہلو رکھا گیا لیکن عملا مشاورت کے عمل کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور ایک ایک ووٹ کی برتری سے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں من پسند ججز کی تعیناتیاں کی گئیں۔کچھ عرصے سے سپریم کورٹ میں مقدمات میں مختصر فیصلے جاری کرنے کی نئی روش چل پڑی ہے اور اکثر مقدمات میں بروقت تفصیلی فیصلے جاری نہیں ہوتے یہاں تک کہ کچھ ججز ریٹائر ہو جاتے ہیں اور نظر ثانی کی معیاد بھی گزر چکی ہوتی ہے جو کہ نا صرف انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ قانون کو روندنے کے مترادف ہے۔

واپس کریں