دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تنازعہ کشمیر میں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ جنیوامیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 53ویں اجلاس کے موقع پرسیمینار
No image جنیوا ۔ 23جون ( کشیر رپورٹ) جنیوامیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 53ویں اجلاس کے موقع پر منعقدہ ایک سیمینارکے مقررین نے تنازعات والے علاقوں میں خواتین کو بااختیار بنانے پر بحث کرتے ہوئے قیام امن اور ایک ایسا ماحول بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جہاں ان کی آواز اکو سنا جاسکے اور ان کا اعتراف کیا جائے۔
"تنازعہ میں خواتین: چیلنجز اور ذمہ داریاں" کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں سابق پارلیمنٹیرینز، سفارت کاروں، انسانی حقوق کے کارکن، مصنفین اور ماہرین تعلیم نے خطاب کیا۔مقررین میں سابق ایم ای پی جولی وارڈ کی،گرلز ناٹ برائیڈ کی سینئر ایڈوکیسی اینڈ کمپین افسر جارجیانا ایپور، ہارورڈ اسپاٹ لائٹ ایوارڈ حاصل کرنے والی تزین حسن، پریذیڈنٹ ویڈوز فار پیس تھرو ڈیموکریسی بیرسٹر مارگریٹ اوون ،کشمیری نمائندہ شمیم شال، ڈاکٹر شگفتہ اور دیگر شامل تھے جبکہ سیمینار کی نظامت وررلڈ مسلم کانگریس کے مستقل نمائندے اور چیئرمین کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی نے کی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مقررین نے خواتین پر تنازعہ کشمیر کے تباہ کن اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری خواتین ظلم وتشدد کا نشانہ بننے کے علاوہ طویل عرصے سے جاری تنازعہ کا سب سے بری طرح شکار ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری خواتین جاری تنازعہ کے دوران اپنے پیاروں کو کھو چکی ہیں۔ انہوں نے افسوس اہار کیاکہ متنازعہ علاقوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کی فوری ضرورت کے بارے میں بڑھتی ہوئی بیداری کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری اور جنسی تشدد کوایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔انہوں نے کہاکہ جموں و کشمیر پر طویل بھارتی فوجی قبضے اور مقبوضہ علاقے میں دس لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کی تعیناتی کی وجہ سے کشمیری خواتین کے خلاف بڑے پیمانے پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں کی طرف سے کشمیری خواتین کی آبر وریزی ، جنسی حملے اور ظلم وتشدد کی دیگر ہتھکنڈے طویل عرصے سے جاری تنازعہ کے مہلک پہلوئوں میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے خواتین کی زندگیوں کو ناقابل بیان مشکلات کا سامنا ہے ۔
مقررین نے کہا کہ 1991میں ہندواڑہ کے گائوں کنن پوش پورہ میں بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں سینکڑوں خواتین کی اجتماعی عصمت دری اور شوپیاں میں دو کشمیری خواتین کی آبروی ریزی اور قتل مقبوضہ علاقے میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی واضح مثال ہیں کہ جاری تنازعہ کی وجہ سئے کشمیری خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت بری طرح متاثر ہو ئی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں مسلسل تنازعات کی وجہ سے نفسیاتی امراض میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری طرف کشمیری خواتین اور نوجوانوں میں عدم تحفظ کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔کشمیری خواتین مقبوضہ کشمیر کے چپہ چپہ میں موجودبھارتی فوجیوں کی طرف سے اغوا اور جنسی زیادتی کے مسلسل خطرے کی وجہ سے اپنے گھروں میں قیدیوںکی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔سیمینار کے مقررین نے کہا کہ کشمیری خواتین متنازعات علاقوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے باوجود بھارتی فورسز کے ظلم وتشدد اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اس معاملے کا فوری نوٹس لیں اور کشمیری خواتین کے خلاف ظلم وتشدد کو رکوانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔
واپس کریں