دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انڈیا کے بدترین مظالم اور جبر سے کشمیری شدید ذہنی دبائو ،ذہنی امراض کا شکار
No image سرینگر۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میںبھارت کی بدترین فوج کشی،مظالم کی مسلسل صورتحال نے کشمیریوں کے شدید ذہنی دبائو سے دوچار کر رکھا ہے اور اس وجہ سے کشمیریوں میں مختلف ذہنی امراض پائے جاتے ہیں۔ بالغ افراد میں سے تقریبا نصف میں ذہنی پریشانی کی علامات ہیں ، 41 فیصدمیں ذہنی تنائو ، 26 فیصدمیں اضطراب اور 19 فیصدمیں پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کی علامات پائی جاتی ہیں۔
غیرقانونی طور پر بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگست 2019 کے بعد مسلسل دہرے محاصرے کی وجہ سے علاقے کے عوام کو ذہنی صحت کے بدترین بحران کی طرف دھکیلا گیا ہے۔ ماہرین صحت نے کہا کہ 5 اگست 2019 کوجب بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کردی اور سخت فوجی محاصرہ نافذ کیا تو اس سے زیادہ تر کشمیریوںخاص کر خواتین اور بچوں کی ذہنی پریشانی میں اضافہ ہوا۔ ایک سرکاری اسپتال میں کام کرنے والے ایک کشمیری ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ہم اب ذہنی صحت کے بدترین اور تاریک ترین مرحلے سے گزر رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ مایوسی ، اضطراب ، تنائو اور صدمے کے مسائل میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ انہوںنے کہاکہ کشمیر میں کوئی بھی ڈاکٹرہوچاہے وہ نفسیاتی ماہر ہو یا نہیں وہ آپ کو یہی کچھ بتائے گا۔
سرینگر میں گورنمنٹ میڈیکل کالج کے ماہر نفسیات ڈاکٹر جنید نبی نے کہاکہ 30 سال سے زیادہ کے عرصے میں پہلی بارکشمیر میں ذہنی صحت کی صورتحال اتنی خراب ہے اور دہرے محاصروںکی وجہ سے بے چینی اور پریشانی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہواہے۔ انہوں نے کہا کہ نفسیاتی مریضوں کو گزشتہ سال سے صحت کی سہولیات اور ادویات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور خاص طور پر خواتین اور بچوں کو شدید مشکلات کا سامناہے۔انہوں نے کہاکہ ہمارے معاشرے میں خواتین ایک دوسرے پر منحصر خاندانی ڈھانچے کا حصہ ہیںاوراتنے طویل عرصے سے اسکولوں کی بندش سے بچوں اور والدین میں بھی غم و غصہ پایا جاتا ہے اور خواتین میں ذہنی دبائو کی علامات بڑھ رہی ہیں۔ جنید نبی نے کہاکہ ہم روزانہ تقریبا300 سے 400 مریضوں کو دیکھتے ہیں جن میں ذہنی دبا ئوکی علامات پائی جاتی ہیں لیکن معاشرتی اقدار کی وجہ سے زیادہ تر لوگ مدد نہیں لیتے ۔کشمیر میں مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے کئے گئے سرویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں جاری قتل و غارت ، تشدد ، نوجوانوں کی بینائی چھیننے ، نظربندیوںاور شہریوں کی تذلیل سمیت انسانی حقوق کی مسلسل پامالیاں سماجی اور اقتصادی بدحالی کا باعث ہیں۔ ڈاکٹرزود آٹ بارڈرزنے 2015 میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مقبوضہ علاقے میں کل آبادی کے 45 فیصدافراد میں ذہنی پریشانی کی علامات پائی جاتی ہیں۔ اس کی آزادانہ تحقیق کے مطابق بالغ افراد میں سے تقریبا نصف میں ذہنی پریشانی کی علامات ہیں ، 41 فیصدمیں ذہنی تناو ، 26 فیصدمیں اضطراب اور 19 فیصدمیں پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کی علامات پائی جاتی ہیں۔

واپس کریں