دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا مقبوضہ کشمیرمیں جی20 اجلاس کرانے کا بھارت کا فیصلہ درست ہے؟امریکہ کے سرکاری میڈیا ادارے وائس آف امریکہVOAنے ٹوئٹرپہ قارئین سے رائے طلب کرلی
No image واشنگٹن( کشیر رپورٹ) امریکہ کے سرکاری میڈیا ادارے وائس آف امریکہVOAنے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میںجی 20 اجلاس کے انعقاد کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں قارئین سے رائے طلب کی ہے۔ امریکی حکومت کی پالیسیوں کے ترجمان وائس آف امریکہVOAنے22مئی کو ٹوئٹر پہ اپنی ایک پوسٹ میں رائے طلب کی ہے کہ
'' بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جی 20 کے ٹورازم ورکنگ گروپ کا تین روزہ اجلاس آج سے شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان نے اس اجلاس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں بھارت کا کشمیر میں جی 20 اجلاس کرانے کا فیصلہ درست ہے؟ ''۔
وائس آف امریکہVOA کی ٹوئٹرپوسٹ کا لنک https://twitter.com/voaurdu/status/1660640579590520837

قارئین نے اس پہ اپنی رائے کااظہا رکرتے ہوئے بھارت کے اس اقدام کی سختی سے مخالفت کی ہے۔کشمیر سے تعلق رکھنے والی صحافی اطہر مسعود وانی نے وائس آف امریکہVOAکے اس استفسارپہ اپنی رائے میں کہا ہے کہ
''نہیں ،کشمیراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطابق ایسا متنازعہ خطہ ہے جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کی رائے شماری سے ہونا ہے،عالمی برادری کشمیرکے دنوں خطوں کے لئے بھارتی زیرانتظام ، پاکستانی زیرانتظام کی اصطلاح استعمال کرتی ہے، کشمیری چارنسلوں سے آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں''۔
اطہرمسعود وانی نے مزید کہا کہ '' مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ شہید ، دس لاکھ بھارتی فوج حالت جنگ کی طرح مسلط ، ہر کشمیری کے سر پہ بھارتی بندوق ، کشمیریوں کے خلاف متعدد انسانیت سوز کالے قوانین نافذ ، ہزاروں کشمیری قید،ہزاروں معذور ، اجتماعی قبریں ، کشمیرمیں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پہ پامالیوں کا سلسلہ اور اس متعلق عالمی اداروں کی رپورٹس ، اورانڈیا کا کشمیرمیں ٹورازم کا ڈھونگ ، کشمیریوں کی لاشوں پہ ٹورازم؟''۔

ڈڈیال آزاد کشمیرسے تعلق رکھنے والے انگلینڈ میں مقیم معروف صحافی واحد کاشرنے اپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ''بھارت کا یہ کشمیر میں جی ٹونٹی کی سائیڈ لائن کانفرنس منعقد کروانے کا اقدام اس کی منافقانہ اور بدمعاش جابرانہ پالیسی کا مظہر ہے کیونکہ بھارت اس طرح کی کانفرنسیں منعقد کروا کر اپنے پانچ اگست کے قابضانہ اقدامات کی توثیق کروانا چاہتا ہے ۔ ہم بھارتی غاصب سرکار کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں''۔

منیرچوہان نے کہا کہ '' ہرگز نہیں۔ انڈیا کو اپنا سافٹ چہرہ دنیا کے سامنے لانا چاہئیے تھا لیکن الٹا یہ ثابت کیا ہے کہ انڈیا کشمیر کو ہڑپ کر چکا ہے ، باوجود اس کے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں''۔

حارث یوسف نے کہا کہ '' بالکل غلط فیصلہ ہے کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے سے مشروط ہے وہ الگ بات ہے کہ اقوام متحدہ کے مسلمانوں کے حوالے سے منافقانہ دہرے معیار رہے ہیں ایک منتازع علاقے پر کیسے کوئی بھی ملک کوئی کانفرنس کرواسکتا ہے''۔

شاہد محمود مٹھیالیوی نے کہا کہ '' یہ انتہائی حیرت کے اسباب پیدا کرنے والا مرحلہ ہے کہ دنیا کے امن پسند ممالک کے اشتراک کو ایک ایسے متنازعہ میدان پر اکھٹا کیا جا رہا ہے جہاں انسانیت اور اس کی آزادی کے بنیادی استحقاق کو سطحیت اور جبری زنجیروں میں جکڑ کر رکھا ہے ،اقلیتوں کے اندوہناک تصادم کی فضا میں جی 20کیا ہے؟''۔

کلیم اللہ نیازی نے کہا کہ ''بھارت کو چاہیے آئے پہلے وہ کشمیری بھائیوں کو مطمئن کرے کرے اور اس کے بعد وہ وہ اپنے ہمسایہ پاکستان کو مطمئن کرے دے مجھے اس کے بعد اس کو حق حاصل ہے ہے کہ وہ اس طرح کی کانفرنس کر سکتا ہے''۔
ارسلان ملک نے کہا کہ ''بلکل نہیں۔ یہ یو-این کے منہ پر تماچہ ہے''۔
عامراقبال نے کہا کہ ''غلط ہے۔۔ انڈیا کی بدمعاشی نا منظور''۔
عبداسلام اعوان نے کہا کہ ''بھارت کا یہ انتہائی غلیظ اقدام ہے۔ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔لیکن اس طرح کے ہتھکنڈوں سے بھارت حقائق سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ انشااللہ کشمیر بھارت کی سامراجی سے آزاد ہو کر رہے گا''۔
ذوالفقاربٹ نے کہا کہ ''درست نہیں ''۔
راجہ نوید جنجوعہ نے کہا کہ ''اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور جو ممالک اس میں حصہ لیں گے وہ کس لحاظ سے سیاسی جمہوری ہے اور انسانیت کے قائل ہیں؟کیا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کوئی اہمیت حثیت نہیں ہے؟کیا یونائیٹڈ ایشیا خطے کی ضرورت بنتا جا رہا ہے،یہ سراسرغنڈا گردی ہے''۔

چند افراد نے بھارت کے اس اقدام کو درست کہا تاہم وہ محض درست کہنے کے علاوہ کوئی بھی دلیل دینے میں ناکام رہے۔

واپس کریں