دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
'' کراچی لاوارث'' ،کراچی تباہی اور بربادی کا نمونہ، شہری مسائل کے حل کے لئے بزرگ شہری عبدالحمید ڈاگیا کی جدوجہد ، خاموش لیکن مضبوط آواز
No image کراچی (کشیر رپورٹ ) عمومی طور پر لوگ عوامی مسائل کے حل کے لئے مظاہرے کرتے ہیں، سڑکیں بند کرتے ہیں، نعرے بازی کی جاتی ہے، ٹریفک کو روک دیا جاتا ہے اور بعض اوقات توڑ پھوڑ کے واقعات بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔لیکن پاکستان میں ایک ایسی شخصیت بھی ہے جو شہری مسائل کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے کسی مہذب ملک کے شہری کی طرح خاموشی کے ساتھ ایسا پرامن اورپر اثر مہم جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ہر ایک کی توجہ ان کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔کراچی کے مختلف علاقوں میں شہری روزانہ ایک ایسے بزرگ شہری کو دیکھتے ہیں جو ہاتھ میں مطالبے کا کتبہ پکڑے خاموشی سے ایک طرف کھڑے ہوتے ہیں۔کراچی کے اس شہری کانام عبدالحمید ڈاگیا ہے جن کی عمر78سال ہے۔عبدالحمید ڈاگیا 1970کے چارٹر اکائوٹنٹ ہیں اور2015سے بزنس مین ٹرنڈ انوائر مینٹل ایکٹی وسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور کراچی کے تمام علاقوں میں شہری، عوامی مسائل کے حوالے سے مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

عبدالحمید ڈاگیا کا کہنا ہے کہ کراچی شہر کو کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے جس سے کراچی تباہ حال، بدنما شہر کا منظر پیش کر رہا ہے اور اس سے شہریوں کو بہت سے مشکلات اور مسائل بھی درپیش ہیں۔انہوں نے کہا کہ سڑکوں، راستوں پہ سیوریج کا بہتا پانی، درختوں کی کٹائی، کوڑے کے ڈھیر، کوڑے کو آگ لگا نے،سڑکوں کی ابتر حالت، سڑکوں کی بہتری ، تعمیر میں غیر معمولی تاخیر اور ایسے ہی کئی مسائل کی وجہ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہرکراچی ، جسے کبھی پاکستان کا یورپ بھی کہا جاتا تھا، آج تباہی، گندگی اور پسماندگی کا منظر پیش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے مسائل کی وجہ سے شہریوں کو ہولناک مسائل کا سامنا ہے اور اس حوالے سے کراچی کے شہریوں کو بڑی ناانصافی کا بھی سامنا ہے۔عبدالحمید ڈاگیا نے کہا کہ میں روزانہ کراچی کے مختلف علاقوں ، سڑکوں ، راستوں پہ ، ہاتھ میں کتبہ لئے ، وہاں موجود مسئلے کے لئے خاموشی سے اپنی آواز بلند کرتا ہوں تا کہ متعلقہ محکمے ، ادارے ، پروفیشنلز، میڈیا، عدلیہ ، سول سوسائٹی اور لیگل کیمونٹی کی توجہ اس جانب مبذول کر ائے جا سکے ۔

عبدالحمید ڈاگیا کی یہ کوشش، جدوجہد جہاں حکومتی محکموں ،اداروں کی غیر ذمہ داری، غفلت کو اجاگر کرتی ہے وہاں سول سوسائٹی کو بھی شہری مسائل کے حوالے سے اس کی ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔اگر متعلقہ محکمے، ادارے، انتظامیہ اپنی ذمہ داری مناسب حد تک پوری کریں تو اس طرح کے مسائل پر بڑی حد تک قابو پاتے ہوئے صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔کراچی کے باشعور شہریوں، سماجی، کاروباری اور مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کوکراچی کی تباہی اور اس وجہ سے شہریوں کو درپیش سنگین مسائل پہ توجہ دیتے ہوئے اس متعلق اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی بے محل نہیں کہ جس طرح پاکستان کے ہر علاقے ، شہر میں لینڈ مافیا کا راج ہے، اسی طرح کراچی شہر کو بھی لینڈ مافیا کی آزادانہ کاروائیوں کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا ہے اور پہنچ رہا ہے۔

واپس کریں