دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بھارت نے5 اگست 2019 کے یکطرفہ اقدامات سے بین الاقوامی قوانین، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کی بھی خلاف ورزی کی ہے، سازگار ماحول بنانے کی ذمہ داری بھارت پر ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری
No image گوا (انڈیا۔5مئی) کشیر رپورٹ ( وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت کے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اقدامات سے نہ صرف بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں بلکہ دو طرفہ معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ بات چیت کے لیے سازگار ماحول بنانے کی ذمہ داری بھارت پر ہے۔پاکستان کے وزیر خارجہ نے جمعہ کو گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کے بعدصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی وکالت کی لیکن کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بھارت کے یکطرفہ اقدام نے اسے نقصان پہنچایا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے جی 20 اجلاس کے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور اس وقت ہم ایسا ردعمل دیں گے کہ اسے یاد رکھا جائے گا۔یہ دنیا کے سامنے بھارتی تکبر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں ، کسی بھی دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے5اگست 2019 کا اقدام کیا گیا اور اب بھارت کشمیر میں جی 20 تقریب منعقد کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کو جلد ہی پتہ چلے گا کہ وہ 110 فیصد حاضری حاصل کرنے میں ناکام رہے گا کیونکہ دوسرے لوگ اپنے اخلاق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ بلا تفریق بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے تمام وزرائے خارجہ کا اسی طرح استقبال کیا جو سندھ اور ملتان میں رائج انداز سے ملتا جلتا تھا۔انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ 2026 میں پاکستان سی ایف ایم کی سربراہی سنبھالے گا، اور امید ظاہر کی کہ ہندوستان "باہمی سفارتی معاہدوں" کی بنیاد پر سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے اچھا قدم اٹھائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں زیادہ تر لوگ تاریخ کے یرغمال بنائے بغیر امن سے رہنا چاہتے ہیں اور ترقی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔"میرا ماننا ہے کہ ہمیں کھیلوں کو سیاست یا خارجہ پالیسی کا یرغمال نہیں بنانا چاہیے اور کھیلوں کا مقصد یہ ہے کہ آپ اسے ایسے مسائل سے دور رکھیں۔"وزیر خارجہ نے CFM چیئر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر ہندوستانی ہم منصب کی تعریف کی اور CFM کے انتظامی اور ثقافتی شو کی بھی تعریف کی جس میں تمام رکن ممالک کی نمائندگی کی گئی۔ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ایس سی او فورم کو اجتماعی سلامتی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اس لعنت سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔ایشیا کپ 2023 کے لیے غیر جانبدار مقام کے بھارتی مطالبے کے بارے میں، وزیر خارجہ نے کہا، "میرا ماننا ہے کہ ہمیں کھیلوں کو سیاست یا خارجہ پالیسی کا یرغمال نہیں بنانا چاہیے اور کھیلوں کا مقصد یہ ہے کہ آپ اسے ایسے مسائل سے دور رکھیں امید ہے کہ کوئی معمولی کارروائی نہیں کی جائے گی اور ہمیں اپنے کھلاڑیوں اور کرکٹ کو سیاست اور خارجہ پالیسی سے الگ رکھنا چاہیے۔

بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں انڈیا پر منحصر ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرے جو مذاکرات کے لیے سازگار ہو۔پاکستان کا موقف یہی ہے کہ اگست 2019 میں انڈیا کی جانب سے جو اقدامات کیے گئے وہ کافی سنگین تھے اور جب تک ان پر نظر ثانی نہیں کی جاتی، معنی خیز دو طرفہ بات چیت مشکل ہے۔بی بی سی ہندی سروس کے ونیت کھرے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہاں ایس سی او کے تناظر میں آیا ہوں اورمیں نے پہلے بھی پاکستان کی پوزیشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس وجہ سے میں نے اپنے میزبان سے خود سے کوئی باہمی بات چیت کی درخواست نہیں کی ہے۔‘
بلاول بھٹو سے پوچھا گیا کہ آپ اس اجلاس میں شیری رحمان کی طرح اور وزرائے دفاع کے اجلاس کی طرح ورچوئلی شامل ہو سکتے تھے مگر آپ یہاں آئے اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’میرا یہاں آنا ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان کتنی اہمیت کے ساتھ ایس سی او کو دیکھتا ہے۔ کتنی سنجیدگی سے ہم اپنا کردار اس تنظیم میں دیکھتے ہیں۔ جہاں تک دوسروں کی ورچوئیل شرکت اور میری ان پرسن (بالمشافہ) شرکت کی بات ہے تو وہ جو باقی ایونٹس ہیں وہ تکنیکی اعتبار سے ایس سی او کے حصے ہیں مگر اتنے آفیشل نہیں جتنا کاؤنسل آف فارن منسٹرز اور سربراہان مملکت کے اجلاس ہوتے ہیں۔ ’پاکستان کے وزیر خارجہ کی طرف سے اس اہم فورم پر پاکستان کی نمائندگی کرنا، پاکستان کا موقف سامنے رکھنا ہمارے خیال میں ضروری تھا۔ جہاں تک کشمیر کی بات ہے یا پاکستان انڈیا دو طرفہ تعلقات کی بات ہے تو پاکستان کا موقف وہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘
واپس کریں