دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ میں بھارتی فوج کا آپریشن کے دوران عام شہریوں پہ ہولناک تشدد، درجنوں گرفتار،ایک کشمیری نے خودکشی کر لی۔برطانیہ کے سرکاری میڈیا ادارے '' بی بی سی'' کا انکشاف
No image سرینگر (کشیررپورٹ)مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کس طرح کشمیریوں کوبدترین تشدد کا نشانہ بناتی ہے اس کی ایک مثال برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے'' بی بی سی'' کی ایک نئی رپورٹ میں بیان کی گئی ہے۔ بھارت فوج کے کشمیریوں پر تشدد اس قدر ہو لناک ، انسانیت سوز ہیں کہ '' بی بی سی '' نے ا س رپورٹ کے شر وع میں ہی یہ انتباہ تحریر کیا گیا ہے کہ'' اس رپورٹ میں خودکشی کا تذکرہ ہے جو چند قارئین کے تکلیف دہ ہو سکتا ہے''۔یہ رپورٹ مقبوضہ کشمیر کے پونچھ ضلع میں گزشتہ ایک ہفتے سے زائد عرصے سے جاری بھارتی فوج کے ایک بڑے آپریشن کے د وران کشمیری شہریوں پر ہولناک تشدد کی کار وائیوں کی صورتحال سے متعلق ہے۔
'' بی بی سی'' کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ''اگر میں سچ کہہ رہا ہوں تو کوئی اس کو سچ نہیں سمجھ رہا۔ میرے خاندان اور مجھ پر بہت ٹارچر ہو رہا ہے۔ اگر میں نے کسی کی مدد کی تو میں نے خدا کو حاظر ناظر جان کر سچائی اور حق پر کی لیکن جو چیز میرے علم میں نہیں یا میرے خاندان پر جو پریشر ڈالا جا رہا ہے، وہ بالکل غلط ہے۔ میں اپنے بھائیوں کو کہتا ہوں کہ میرے بیوی، بچوں کا خیال رکھیں۔ میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، سمجھو وہ بھی مر رہے ہیں۔ کوئی فکر نہ کرے میری زندگی ہی اتنی تھی۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ میں گذشتہ ہفتے فوج پر ہوئے مسلح حملے کی تحقیقات نے جمعرات کو ایک نیا موڑ اس وقت لیا جب مختار احمد نامی 50 سالہ شہری کی مبینہ خودکشی کے بعد ان کی یہ ویڈیو وائرل ہوئی۔لگ بھگ دس منٹ کی اس ویڈیو میں مختار مزید کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے یہ راستہ (خودکشی) غلط ہے، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا، لیکن میری وجہ سے میرا خاندان، میرے بھائی اور گاں کے دوسرے لوگ پریشان ہیں۔ اس لیے میں یہ قدم سچائی کے لیے اٹھا رہا ہوں۔خود کو اور اپنے خاندان کو وطن پرست کہتے ہوئے مختار مزید کہتے سنائی دیتے ہیں کہ چند لوگوں کی غلطی کی وجہ سے ہم پر ظلم ہو رہا ہے، ان لوگوں کو بے نقاب کریں اور امن و سکون سے رہیں، کیونکہ ہمیں فوج، پولیس یا حکومت سے کوئی شکایت نہیں۔ اگر کسی ایک کی غلطی ہے تو اس کی بنیاد پر میرے گا ں والے اٹھائے جا رہے ہیں اور مارے جا رہے ہیں۔میں پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہوں مگر آج تین دن ہو چکے ہیں میں کوئی نماز ادا نہیں کر سکا۔ میرے والد ہارٹ کے مریض ہیں، میرے بچے اور میری ماں الگ پریشان ہیں۔ جب گھر فون کرتا ہوں تو بچے روتے ہیں، خوف ہے۔ مجھے بتائیں کیا کریں ہم۔ میرے خاندان نے ہمیشہ ہندوستان کا ساتھ دیا مگر آج میرا پورا خاندان ٹارچر ہو رہا ہے۔
ویڈیو میں وہ اپنے ہاتھ میں پلاسٹک کی ایک بوتل پکڑے ہوئے ہیں، جس میں ان کے مطابق زہریلی گولیاں موجود ہیں اور وہ اپنے بھائیوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ ان کے بعد وہ ان کی تین بچیوں اور ایک بیٹے کا خیال رکھیں۔ اطلاعات کے مطابق مختار نے منگل کے روز مبینہ طور پر زہریلی شے کھائی جس کے بعد انھیں مقامی ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں جمعرات کو ان کی موت ہو گئی۔ان کے جنازے میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی اور چند گھنٹوں کے لیے پونچھ، راجوری شاہراہ پر لوگوں نے مظاہرہ بھی کیا۔مقامی رہائشی محمد انصار نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ سوال یہ ہے کہ یہ ویڈیو بنائی کس نے ہے؟ پولیس کو اسے گرفتار کرنا چاہیے کیونکہ کسی کے سامنے زہر کھا لے تو وہ کھڑا ہو کر تماشا نہیں دیکھ سکتا۔سینیئر پولیس افسروں کی یقین دہائی کے بعد جمعرات کو مظاہرین منتشر ہو گئے اور مختار کی تدفین کر دی گئی۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور انھیں ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کی تلاش ہے۔
یاد رہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ میں گذشتہ ہفتے ہونے والے ایک مسلح حملے میں پانچ انڈین فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد 50 سے زائد افراد کو تفتیش کی غرض سے حراست میں لیا گیا تھا۔ 50 سالہ مختار احمد بھی ان میں سے ایک تھے۔ تفتیش کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی مگر انھوں نے رہائی کے بعد مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔گذشتہ ایک ہفتے سے پونچھ کے بھاٹا دوریاں، جہاں یہ حملہ ہوا تھا، اور ملحقہ بستیوں میں تلاشی مہم جاری ہے۔
اس دوران پولیس نے ناصر احمد نامی شخص کو گرفتار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ناصر نے حملے سے دو ماہ قبل حملہ آوروں کو گھر میں پناہ دی اور یہ کارروائی کرنے کے لیے ان کی مدد بھی کی۔جمعے کو جموں کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پونچھ میں فوج پر ہونے والا حملہ مقامی افراد کی اعانت سے کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی مدد کرنے والے نثار نامی ایک شخص کو گرفتار کر کے اہم معلومات ملی ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ فوجی گاڑی کو بارودی دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی گئی۔
رواں سال انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں فوج اور سکیورٹی اداروں پر حملوں کے واقعات تسلسل سے پیش آئے ہیں اور اگرچہ سرکاری سطح پر اس معاملے میں پاکستان کا نام نہیں لیا جا رہا ہے تاہم غیر سرکاری حلقوں کا الزام ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کشمیر میں بدامنی پھیلانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔انڈیا کی تحقیقاتی ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالِسِز وِنگ یعنی را کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دلت نے معروف انڈین صحافی کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پونچھ کا علاقہ پاکستانی جاسوسوں کے لیے کھیل کا میدان بن چکا ہے۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ پاکستان کی آئی ایس آئی نے یہ حملہ کروایا ہے۔
تاہم جمعہ کے روز پاکستانی وزارت خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں سابق را چیف اور دیگر عہدیدارن کے الزامات سے متعلق سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ تبصرے مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور ہم نے عالمی برادری کو اس ضمن میں ثبوت فراہم کیے ہیں کہ کیسے ہمیں نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کا ایک مستقل موقف رہا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن چاہتا ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ انڈیا متنازع مسائل اور خاص طور پر جموں و کشمیر کا بنیادی تنازع حل کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے سے متعلق اقدامات کرے گا۔
سابق را چیف، جموں کشمیر پولیس چیف اور دیگر انڈین عہدیدارن کے دعوں پر بات کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران کشمیر کے حالات میں پاکستان کا سٹیک بہت کم ہو گیا ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک تو پاکستان اپنے مسائل میں گھِرا ہوا ہے، اور ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ دفعہ 370 ہٹانے کے بعد صرف چھ مہینوں کے اندر ہی انڈیا اور پاکستان کی افواج نے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کی تھی جس کے بعد اب بہت عرصے سے سرحدوں پر تنا بھی نہیں ہے۔ہارون کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے معاملات کی عالمی ایجنسی ایف اے ٹی ایف کے پاس جوابدہی کا بھی مسئلہ بھی درپیش ہے تو اسی لیے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف انڈیا کے ساتھ سرحدیں پرامن رکھنے کی انڈر سٹینڈنگ ہو اور دوسری طرف تشدد کی پالیسی پر عمل ہو۔ کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو میں سابق را چیف امرجیت سنگھ دلت نے دعوی کیا کہ ان کو معلوم ہوا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کی تجدید کے وقت انڈیا نے پاکستان کو بعض رعایات دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو لگتا ہو کہ ان وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا اور پونچھ میں ہونے والا حملہ اسی کا ری ایکشن ہو۔خیال رہے کہ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے رواں ہفتے بتایا تھا کہ فروری 2021 میں سیز فائر پر جو سمجھوتہ ہوا اس کے بعد سے لائن آف کنٹرول کی صورتحال نسبتا پرامن رہی ہے۔
بی بی سی کے رابطہ کرنے پر راجوری اور پونچھ رینج کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل حسیب مغل نے حملہ کی تحقیقات اور گرفتاریوں پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم فوجی ذرائع اس معاملے میں پیپلز اینٹی فاشسٹ فورس نام کے عسکریت پسند گروہ کی جانب اشارہ کیا۔یاد رہے کہ پونچھ میں ہونے والے حملے کے بعد انڈین حکام نے کئی مسلح گروپوں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کے اہلخانہ کے کشمیر میں واقع گھروں کو سیل کر دیا گیا، ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رشتہ داروں کو نوکریوں سے برطرف کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔اسی تناظر میں جموں کے کشتوار ضلع سے تعلق رکھنے والے 36 ایسے افراد کے خلاف غیرضمانتی وارنٹ جاری کیے گئے تھے جن کے بارے میں پولیس کا دعوی ہے کہ وہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور دوسرے پاکستانی شہروں میں مقیم ہیں۔کشتواڑ کے پولیس افسر خلیل پوسوال نے الزام عائد کیا کہ ان افراد نے مسلح شورش کی شروعات میں ہی دہشت گردوں کی صفوں میں شمولیت کی تھی اور اب وہ پاکستانی سرزمین سے ہی کشمیر کے نوجوانوں کو تشدد پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے، تقریبا 40 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ نام نہاد محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں میں من مانے انداز میں یہ گرفتاریاں کی گئی۔ آزادی کے حامی دو کشمیریوں سید شکیل یوسف اور سید شاہد یوسف کی جائیدادیں بھی ضبط کر لیں جو فی الحال زیر حراست ہیں۔دفتر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ ہمیں ان واقعات پر سخت تشویش ہے۔ یہ کارروائیاں مقبوضہ علاقے میں بنیادی آزادیوں کو دبانے اور مقامی آبادی کو دہشت زدہ کرنے کی مسلسل بھارتی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہیں۔
واپس کریں