دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے پاکستان میں واقع کشمیرسٹیٹ پراپرٹی کی فروخت کا عمل روکنے کے لئے آزاد کشمیر ہائیکورٹ میں رٹ دائر، ہائیکورٹ نے11اپریل کو فریقین کو طلب کر لیا، کشمیرسٹیٹ پراپرٹی کی مکمل تفصیل معروف کشمیری صحافی اطہر مسعود وانی نے2012کو شائع کی تھی
No image مظفر آباد(کشیر رپورٹ)پاکستان میں و اقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے بارے میں آزاد کشمیر ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر دی گئی، مقدمے میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ آزاد جمو و کشمیرکونسل اور وزارت امور کشمیرکی طرف سے 29نومبر2019کو کشمیرسٹیٹ پراپرٹی کی فروخت کے حوالے سے چیئرمین کشمیرکونسل، وزیراعظم پاکستان کو ارسال کردہ سمری پرکاروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے روکا جائے،وزیر اعظم پاکستان کو ارسال کردہ اسی سمری کے حوالے سے کشمیر کونسل اور سیکرٹری کشمیرافیئرز کی طرف سے قائم کردہ کو کام کرنے سے روکاجائے اورآزاد کشمیرحکومت اور آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی اس حوالے سے قانون سازی و کشمیرسٹیٹ پراپرٹی کو وزارت امور کشمیرسے اپنی تحویل میں لینے کی ہدایت کی جائے۔مقدمے میںچیئر مین کشمیرکونسل ، وزیر اعظم پاکستان،وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان ، سیکرٹری کشمیرکونسل،وفاق پاکستان بذریعہ کیبنٹ سیکرٹری،صدر آزاد کشمیر، وائس چیئرمین کشمیرکونسل،وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کو فروخت کئے جانے سے متعلق قائم کردہ کمیٹی،آزاد کشمیرحکومت بذریعہ چیف سیکرٹری ،آزاد کشمیر اسمبلی بزریعہ سپیکر،وزارت قانون و پارلیمانی امور آزاد کشمیر حکومت،محکمہ فزیکل پلاننگ و ہائوسنگ بذریعہ سیکرٹری حکومت آزاد کشمیر،محکمہ داخلہ آزاد کشمیر حکومت بذریعہ سیکرٹری داخلہ/چیف سیکرٹری ، ایڈ منسٹریٹر کشمیر سٹیٹ پراپرٹی لاہور اور عوام الناس کو فریق بنایا گیا ہے۔ یہ رٹ پٹیشن شاہد علی اعوان ایڈووکیٹ بذریعہ کے ڈی خان ایڈووکیٹ و چودھری اعجاز اقبال ایڈووکیٹ ہائیکورٹ دائر کی گئی ہے۔ہائیکورٹ نے رٹ پٹیشن سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے11اپریل کو فریقین کو طلب کر لیا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے 2019میں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کو فروخت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزارت امور کشمیر اور کشمیرکونسل کو اس سلسلے میں سمری تیار کر کے وفاقی کابینہ کو ارسال کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ایڈیٹر ' کشیر' اطہر مسعود وانی نے دسمبر2012 کو ایک تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ میں پہلی بار پاکستان میں واقع کشمیرسٹیٹ پراپرٹی کی تفصیل شائع کی تھی۔اس تحقیقاتی رپورٹ میں کشمیرسٹیٹ پراپرٹی ایڈ منسٹریٹیو آفس لاہو ر کے ریکارڈ کے مطابق بتایا گیا تھا کہ وزارت امور کشمیر پاکستان میں واقع اربوں روپے مالیتی کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی 468 کنال شہری اور 452ایکڑ زرعی اراضی فروخت کرچکی ہے ۔ فروخت کردہ کشمیر پراپرٹی کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں ۔ وفاقی وزارت کو کشمیر پراپرٹی فروخت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ نیب کیلئے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی میں کی جانے والی کرپشن بڑا موضوع ہے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کل 1048کنال شہری پراپرٹی میں سے اب صرف 580 کنال اور 2426 ایکڑ دیہی اراضی میں سے 1974 ایکڑ باقی بچی ہے ۔کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا زیادہ حصہ پنجاب اور کچھ خیبر پختونخواہ میں واقع ہے۔ پاکستان میں ریاست جموں وکشمیر کی کل شہری سٹیٹ پراپرٹی 1048 کنال تھی جس میں سے 468 کنال فروخت کردی گئی ہے۔ جبکہ اب 580 کنال پرمبنی جائیداد باقی بچی ہے۔ اسی طرح کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کل زرعی اراضی تقریبا 2426 ایکڑ تھی جس میں سے 462 ایکڑ فروخت کردی گئی اور اب 1974 ایکڑ باقی بچی ہے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی ان 35 جائیدادوں میں سے 14 جائیدادیں 1961 سے اب تک وزارت امورکشمیر کے خطوط پر مبنی اجازت کے ذریعے منظور نظر افراد کو فروخت کی جاتی رہی ہیں۔

اس رپورٹ میں معروف کشمیری صحافی اطہر مسعودوانی نے پاکستان میں واقع کشمیرسٹیٹ پراپرٹی کی تفصیلات کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ

(1)۔ حویلی دیال سنگھ لاہورمیں 55 کنال 6 مرلہ 150 مربع فٹ آراضی تھیںجس میں سے 32 کنال 10 مرلہ 203 مربع فٹ لیٹر نمبرKP-3/11/72 مورخہ 3-9-1980 اور لیٹر نمبر KP1-1/1/81 مورخہ 15-7-1981 کے ذریعے نامعلوم افراد کو فروخت کردی گئیں۔ اب اس میں سے 22 کنال 17 مرلہ 128 مربع فٹ جائیداد باقی بچی ہے۔

(2)۔لنڈا بازار لاہور (3)۔لوہا بازار لاہور (4)۔ٹرنک بازار لاہور (5)۔چانگڑ محلہ لاہور (6)۔تھاریاں لاہور (7)۔جھگیاں لاہور (8)۔سرد چاہ باغ لاہور (9)۔کٹیر لاہور(10)۔احاطہ غلام بی بی لاہور (11)۔احاطہ میاں سلطان لاہور (12)۔احاطہ کرپا رام لاہور اور (13)۔سرائے میاں سلطان لاہور ، کی کل اراضی 289 کنال 5 مرلہ 200 مربع فٹ تھی جس میں سے 32 کنال 17 مربع 127 مربع فٹ لیٹر نمبر KP-9(3)/62(K-1) مورخہ 27-3-1963 اور KP-4/1/81(K-1) مورخہ 31-7-1962 کے تحت فروخت کردی گئیں۔اور اب اس میں سے 256 کنال 8 مربع 7 مربع فٹ باقی ہے۔

(14)۔نو لکھا گڈز ٹرانسپورٹ لاہور کل اراضی 1 کنال 12 مرلہ 221 فٹ تھی جو کہ تمام کی تمام لیٹر نمبر KP-10(17)64.KII مورخہ 5-3-1965 کے ذریعے فروخت کردی گئی۔

(15)۔کشمیر ہائوس کشمیر رو ڈ لاہور کل اراضی 100 کنال 12 مربع 13 فٹ ، اور (16)۔حسن دین نرسری ایجرٹن روڈ لاہور کی 13کنال 216 فٹ جائیداد لیٹر نمبر KII(3)/61(K-1) مورخہ 21-3-1961 تمام کی تمام فروخت کردی گئیں۔

(17)۔A-10 کشمیر روڈ کی 6 کنال 12 مرلہ جائیداد میں سے 2 کنال 3 مرلہ 53 مربع فٹ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) نے اکوائر کرلی۔ یوں اب اس میں سے 4 کنال 8 مرلہ 172 مربع فٹ جائیداد باقی ہے۔

(18)۔پونچھ ہائوس لاہور کی کل 212 کنال اراضی میں سے 36 کنال لیٹر نمبر K-8(6)/53(K-2) مورخہ 1-11-1965 فروخت کردی گئی اور اب یہاں کوئی اراضی باقی نہیں ہے۔یوں پونچھ ہائوس لاہور کی باقی 176 کنال جائیداد کا کچھ پتہ نہیں ہے ، ایڈمنسٹریٹر آفس کے ریکارڈ کے مطابق پونچھ ہائوس لاہور کی 212 کنال اراضی میں سے کچھ باقی نہیں ہے۔

(19)۔پونچھ ہائوس کنسٹریکشن سکیم ایریا لاہور کی کل جائیداد 174 کنال 11 مرلہ 194 مربع فٹ تھی جو تمام کی تمام زیر لیٹرنمبر KP-3(3)/82 مورخہ 9-6-1992 کو فروخت کردی گئی۔ اور اب کشمیر پراپرٹی کی اس جائیداد کا بھی کوئی وجود نہیں ہے۔

ضلع گوجرانوالہ میں ، (20)۔فاریسٹ ریسٹ ہائوس وزیر آباد میں کل 5کنال 13 مرلہ پر مبنی کشمیر پراپرٹی کی جائیدادتھی جس میں سے 4 کنال 16 مرلے لیٹر نمبر KP-1/1/81 مورخہ 15-7-1981 فروخت کر دی گئی اور اب اس میں سے صرف 17 مرلہ باقی ہے۔

ضلع سیالکوٹ (21)۔سرائے مہاراجہ سیالکوٹ کی کل 19 کنال 1 مرلہ جائیداد ہے اور یہ اب تک فروخت ہونے سے بچی ہوئی ہے۔ (22)۔بنگلہ نمبر 13 ہسپتال روڈ سیالکوٹ کی 1.87 ایکڑ اراضی تھی جسے B-1 قرار دیا گیا اور اس کا قبضہ پاکستان آرمی کو دیا گیا۔

ضلع جہلم (23)۔فاریسٹ ریسٹ ہائوس جہلم کی کل 17 کنال 12 مرلہ اراضی پر مبنی جائیداد تھی جس میں سے 13 کنال 3 مرلہ لیٹر نمبر K-23(1)-K-1 مورخہ 26-8-1963 اور لیٹر نمبر KP-4/3/71 مورخہ 14-2-1981 فروخت کردی گئیں۔ یوں اب اس میں سے 4 کنال 19 مرلہ 47 مربع فٹ کی جائیداد باقی بچی ہے۔

(24)۔فاریسٹ ہائوس شاداب روڈ جہلم کل اراضی 43 کنال 11 مرلہ تھیں جس میں سے 38 کنال 9 مرلہ 47 مربع فٹ زیر لیٹر نمبر KP-4/3/71 مورخہ 14-2-1981 فروخت کردی گئی۔ یوں اب اس میں سے 4 کنال 18 مرلے 47 مربع فٹ باقی ہے۔ (25)۔پونچھ ہائوس راولپنڈی 23 کنال 11 مرلہ ۔ یہ اب تک فروخت ہونے سے بچی ہوئی ہے۔ (26)۔سرائے خردو کلاں راولپنڈی 10 کنال اراضی ہے ۔جس میں 83 کرایہ دار مقیم ہیں۔
(27)۔پنڈی ہزارہ ٹرانسپورٹ کمپنی اینڈ ناردرن پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کی 17 کنال 13 مرلہ پر مبنی جائیداد تھی جو تمام کی تمام زیر لیٹر نمبر KP-30/(2)/56-(-1) مورخہ 7-3-1964 فروخت کر دی گئی۔ (28)۔سرائے گنڈا سنگھ کی 4 کنال 9 مرلہ 6 مربع فٹ اراضی پر مبنی جائیداد تھی، یہ بھی تمام کی تمام زیر لیٹر نمبرK-II(6)61(K-1) مورخہ 7-3-1964 فروخت کردی گئی۔

(29)۔راجہ بازار راولپنڈی میں 7 کنال 162 مربع فٹ اراضی پرقائم 17 دوکانیں تھیں جو زیر لیٹر نمبر K-II(4)61(K-1) مورخہ 14-2-1962 فروخت کر دی گئیں۔

(30)۔آزاد پتن میں 16 کنال 12 مرلہ اراضی ، ریکارڈ کے مطابق یہ تمام زمین دریائے جہلم کے کٹا میں آگئی۔

(31)۔سرائے مہاراجہ کہوٹہ ساڑھے پندرہ مرلہ ، یہ اب بھی باقی ہے۔

(32)۔پونچھ ہاس مردان میں 15 کنال کشمیر سٹیٹ پراپرٹی KAD کے زیر لیٹر نمبر K-81(14)53(K) مورخہ 15-11-1965 کو ڈاکٹر امیر محمد خان کو فروخت کردی گئی، یوں اب خیبر پختون خواہ میں کشمیر سٹیٹ کی کوئی پراپرٹی موجود نہیں ہے۔

اسی طرح کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی زرعی اراضی کے ریکارڈ کے مطابق ، (33)۔گائوں سلطان پور لاہور میں 111 ایکڑ اراضی تھی جس میں سے 234 کنال 14 مرلہ لیٹر نمبر K.6(8)/60(K-1) مورخہ 14-2-1962 کے ذریعے 1091 کنال بی آر بی نہر اور ریلوے لائن کیلئے ایکوائر کی گئی ، اب اس میں سے 12 ایکڑ 1 کنال 12 میٹر باقی ہے۔

(34)۔ضلع شیخوپورہ گائوں پوراب تحصیل فیروز والا میں 1259 ایکڑ اراضی میں سے 353 ایکڑ 9 مرلہ زیر لیٹر نمبر KP-3/1/75 مورخہ 10-8-1981 فروخت کردی گئی۔اوراب اس میں سے 906 ایکڑ اراضی باقی بچی ہے۔

(33)۔گائوں جنگھو چک شیخوپورہ میں 1056 ایکڑ اراضی موجود ہے۔



واپس کریں