دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر اسمبلی سے کشمیر کاز کے منافی اور بھارت کی موافقت میں قرار داد کا معاملہ ایک سکینڈل کی صورت اختیار کر گیا
No image مظفر آباد(کشیر رپورٹ) آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے29مارچ کے اجلاس میں ایک حکومتی رکن کی طرف سے سیز فائر لائین(لائین آف کنٹرول) پہ کرتا رپور کولیڈور کی طرز پہ کولیڈور کے قیام کے مطالبے پہ مبنی قرار داد پیش اور متفقہ طورپر منظور ہونے کا معاملہ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔بھارتی میڈیا پہ آزاد کشمیر اسمبلی کی اس قرار داد پہ بریکنگ نیوز چلائی گئی کہ بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کی طرف سے کشمیری ہندوئوں کو شاردہ ٹیمپل تک رسائی دینے کے لئے کولیڈور کے قیام کے اعلان کی آزاد کشمیر اسمبلی نے حمایت کی قرار داد منظور کر لی ہے۔یوں آزاد کشمیر اسمبلی کی اس قرار داد کا معاملہ ایک سکینڈل بن چکا ہے اور آزاد کشمیر اسمبلی سے اس قرار داد کو واپس لینے اور اس کی جگہ ایک دوسری قرار داد لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اسی سلسلے میں 5اپریل کو آزاد کشمیر اسمبلی کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ہے جس سے آزاد کشمیر کے صدر خصوصی خطاب کریں گے۔آزاد کشمیر اسمبلی کا اجلاس14اپریل کو منعقد ہونا تھا تاہم اسمبلی قرار داد سکینڈل کی صورتحال میں اب یہ اجلاس5اپریل کو طلب کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے اس قرار داد کو واپس لینے اور اس معاملے کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے۔اس شرمناک قرار داد کے سکینڈل سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی سے کشمیرکاز کے منافی اور بھارت کی موافقت میں شرمناک قرار داد کے واقعہ کے تناظر میںآزاد کشمیر کے سیاستدانوں کواپنے سیاسی اور حکومتی کردار کا جائزہ لینے اور اسے بہتر بنانے پہ توجہ دینے کی ضرورت بھی سامنے آئی ہے۔
آزاد کشمیر اسمبلی کی اس قرار داد کے پیش اور منظور ہونے کا آزاد کشمیر میں کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا تاہم ایڈیٹر 'کشیر' اطہر مسعود وانی کی طرف سے ایک خبر''آزاد کشمیراسمبلی میں 'آرپار'کے کشمیریوں کی ملاقات سے متعلق ایک حکومتی رکن اسمبلی کی ' شرمناک' قرار داد متفقہ طورپر منظور'' https://www.kasheer.com.pk/ پہ شائع ہونے اور سینئر صحافی اطہر مسعود وانی کی طرف سے اس معاملے میں ایک مہم شروع کئے جانے پہ یہ معاملہ سب کے سامنے واضح ہوا اور اعلی حکام و متعلقہ سلامتی اداروں کی طرف سے اس کا سختی سے نوٹس لیا گیا۔اہم ذمہ داران اور متعلقہ سلامتی کے اداروں کے نوٹس میں یہ بات آنے سے آزاد کشمیر کے حکومتی حلقوں اور سیاستدانوں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی کہ ان سے یہ کیا بلنڈر ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے افطار ڈنر سے پہلے حریت کانفرنس کے نمائندگان کی طرف سے بھی اس معاملے پہ ایک جملے کا بیان بھی نہیں آیا۔ حکام بالا کی طرف سے باز پرس سے ہی وزیر اعظم آزاد کشمیر نے اس معاملے پہ پریشانی اور اقدامات کا اعلان کیا۔وزیر اعظم آزاد کشمیر کے اس متعلق بیان کے بعد ہی حریت اور حکومتی اتحادی سیاستدانوں و دیگر کی طرف سے مذمتی بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اس معاملے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی کی اس شرمناک قرار داد کے معاملے پہ اعلی سطحی کاروائیوں کے بعد اس معاملے میں '' کریڈٹ'' لینے کے لئے بھی ایک مقابلے کی کیفیت نظر آ رہی ہے۔
آزاد کشمیر حکومت ، اسمبلی اور ارکان اسمبلی کی اس سنگین قرار داد کے معاملے پہ دنیا بھر سے کشمیریوں کی طرف سے وسیع پیمانے پہ تشویش کی لہر دوڑگئی اور ان کی طرف سے اس صورتحال پہ افسوس اور مذمت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے پہ اس قرار داد کی مخالفت اور مذمت میں سوشل میڈیا پہ بھی مہم شروع ہوئی اور اس اہم معاملے میں ٹوئٹر کی متعدد سپیسز بھی ہوئیں۔
ایڈیٹر ' کشیر ' اطہر مسعود وانی کی اس خبر میں کہا گیا تھا کہ
'' آزاد کشمیراسمبلی میں بدھ کے روز اجلاس میں ایک حکومتی رکن اسمبلی کی '' آر پار'' کے کشمیریوں کی ملاقات کے حوالے سے ایک ' شرمناک' قرارداد متفقہ طور پر منظورکی گئی،یہ قراردادآزاد کشمیرکے دیرینہ سیاسی موقف کے برعکس اورکشمیریوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔یہ قرارداد اوراس قرارواد کا اسمبلی سے متفقہ طوروپرمنظورہونا آزاد کشمیرکے سیاستدانوں، ارکان اسمبلی کی کشمیرکاز ، تحریک آزادی کشمیرسے متعلق اپنی ذمہ داریوں سے بے خبری اور بے اعتنائی کی ایک بڑی بھی مثال ہے۔منقسم ریاست جموں وکشمیر کی حیثیت ہندوستانی اور پاکستانی پنجاب سے قطعی مختلف ہے۔ہندوستانی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کی صورت دونوں ملکوں میں مستقل طورپر تقسیم ہو چکا ہے اور دونوں کے طرف انٹرنیشنل بارڈر قائم ہے جبکہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اس کے برعکس ، اس سے قطعی طور پر مختلف ہے، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر عالمی سطح پہ تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے۔کشمیریوں کی ملاقات کے لئے کوریڈور کے قیام کا مقصد کشمیر کی تقسیم کو تسلیم کرنے کے بھی مترادف ہو گا۔ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان سیز فائر لائین پہ ایسا مقام طے کرنا جہاں دونوں طرف سے کشمیری جمع ہو کر ایک دوسرے سے ملاقات کر سکیں، کشمیریوں کی امنگوں کے منافی اور کشمیریوں سے بڑی زیادتی ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کے زخموں پہ نمک پاشی کے مترادف ہو گا۔آزاد کشمیر حکومت اور آزاد کشمیرکی سیاسی جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ یہی ہے کہ ریاست کے دونوں طرف کے باشندگان '' آر پار'' آنے جانے کے حق کا احترام کیا جائے اور ریاستی باشندگان کو ان کا یہ حق دیا جائے۔آزاد کشمیرحکومت اورپاکستان حکومت کے درمیان1949میں طے پائے معاہدہ کراچی کی رو سے مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان ، آزاد کشمیراور مقبوضہ جموں وکشمیر میں تحریک آزادی کے لئے کام کرنا آزاد کشمیرکی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔اس قرار داد کے ذریعے آ زاد کشمیرکی قانون ساز اسمبلی کے ارکان کا متفقہ طورپر حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرنا کہ کرتاپورہ کی طرز پہ سیز فائر لائین، لائین آف کنٹرول پہ دونوں طرف کے کشمیریوں کی ملاقاتوں کے لئے ایک مقام قائم کرنا، ہر عنوان سے شرمناک،قابل مذمت اور کشمیرویوں کی امنگوں کے منافی ہے۔کشمیری انسان ہیں، کوئی جانور نہیں کہ ان کو کسی باڑے میں ملنے کا موقع دیا جائے ۔ یہ قرار داد اور اس قرار داد کا متفقہ منظور کیا جانا ان محترم ممبر کی تجویز ،اسمبلی ارکان کے کشمیری عوام کے مسائل ،اس انسانی مسلے کی شدت اور مسلہ کشمیر سے مکمل لاعلمی کا ننگا اور افسوسناک اظہار بھی ہے۔اس عاقبت نا اندیشی،نااہلی اور اپنے فرائض سے متعلق بے اعتنائی اور بے خبری پر مبنی اس قرار داد کی ہر کشمیری کو سختی سے مذمت کرنی چاہئے۔اس قرار داد کا آزاد کشمیراسمبلی میں پیش ہونا اور متفقہ طورپر منظور ہونا آزاد کشمیر حکومت، اسمبلی اور آزاد کشمیرکی سیاسی جماعتوں کی نااہلی ، انحطاط پذیری اور مجرمانہ غفلت کی ایک بڑی مثال ہے''۔


واپس کریں