دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیراسمبلی میں 'آرپار'کے کشمیریوں کی ملاقات سے متعلق ایک حکومتی رکن اسمبلی کی ' شرمناک' قرار داد متفقہ طورپر منظور
No image مظفر آباد(کشیر رپورٹ) آزاد کشمیراسمبلی میں بدھ کے روز اجلاس میں ایک حکومتی رکن اسمبلی کی '' آر پار'' کے کشمیریوں کی ملاقات کے حوالے سے ایک ' شرمناک' قرارداد متفقہ طور پر منظورکی گئی،یہ قراردادآزاد کشمیرکے دیرینہ سیاسی موقف کے برعکس اورکشمیریوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔یہ قرارداد اوراس قرارواد کا اسمبلی سے متفقہ طوروپرمنظورہونا آزاد کشمیرکے سیاستدانوں، ارکان اسمبلی کی کشمیرکاز ، تحریک آزادی کشمیرسے متعلق اپنی ذمہ داریوں سے بے خبری اور بے اعتنائی کی ایک بڑی بھی مثال ہے۔
تفصیلات کے مطابق آزاد کشمیر اسمبلی کے بدھ کے روز منعقد ہونے والے اجلاس میں راولپنڈی کے حلقہ 4سے شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف حکومت کے اتحادی رکن اسمبلی ،آزاد کشمیر حکومت کے پارلیمانی سیکرٹری برائے ٹرانسپورٹ جاوید بٹ کی جانب سے قرار داد پیش کی گئی جسے متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ۔ قرارداد میں کہا گیاکہ وفاقی حکومت اور آزادکشمیر کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں آر پار بسنے والے کشمیریوں کو آپس میں ملنے کا موقع فراہم کیاجائے جیسے کرتار پور"کوریڈور"بنایا گیا ہے ایسے ہی آزادکشمیر کا"کوریڈور"بھی بنایا جائے تاکہ مقبوضہ وادی اورآزادکشمیر کے لوگ آپس میں مل سکیں۔ 05اگست2019کے بعد سے آج تک ٹریڈ کا نظام بھی بند ہے اور آزادکشمیرسے کوئی کشمیری بھی مقبوضہ وادی میں نہیں جاسکتا۔
آزاد کشمیراور مقبوضہ کشمیر کے درمیان ریاست کے دونوں طرف مقیم باشندگان کے لئے '' سرینگرمظفر آباد بس سروس'' اپریل 2005میں شروع کی گئی اور اس بس سروس سے سفر کرنے والے کشمیریوں کا پاسپورٹ کے بجائے پرمٹ پہ سفر کی اجازت سے بھی کشمیریوں کے اپنی منقسم ریاست میں آنے جانے کی حق کو تسلیم کیا گیا۔اس کے کچھ عرصے کے بعد چکاں دا باغ اور ٹیٹوال سے بھی کراسنگ پوائنٹس قائم کئے گئے جہاں سے دونوں طرف کے باشندے آتے جاتے رہے۔ ا س کے علاوہ مظفر آباد اور سرینگر کے درمیان بارٹر سسٹم کے تحت تجارت کے لئے ٹرک سروس بھی شروع کی گئی۔2019کو فروری کے تیسرے ہفتے ہندوستان نے یہ سروس معطل کر دی اور اس وقت سے اب تک یہ بس سروس بند ہے۔
9نومبر2019 کو ہندوستانی حکومت کی1999کی ایک درخواست پر سکھوں کے ایک مقدس مقام کرتا ر پور میں ، جو پاکستانی شہر نارووال کے قریب سرحد کے ساتھ واقع ہے، میں سکھوں کے مقدس مقام پہ قائم گوردارے کے ساتھ ایک مقام کی تعمیر کی گئی جہاں پاکستان اور ہندوستان کے افراد اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اس مقام پہ آنے کے لئے دونوں طرف سے اجازت نامے کی شرط عائید کی گئی۔
منقسم ریاست جموں وکشمیر کی حیثیت ہندوستانی اور پاکستانی پنجاب سے قطعی مختلف ہے۔ہندوستانی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کی صورت دونوں ملکوں میں مستقل طورپر تقسیم ہو چکا ہے اور دونوں کے طرف انٹرنیشنل بارڈر قائم ہے جبکہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اس کے برعکس ، اس سے قطعی طور پر مختلف ہے، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر عالمی سطح پہ تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے۔کشمیریوں کی ملاقات کے لئے کوریڈور کے قیام کا مقصد کشمیر کی تقسیم کو تسلیم کرنے کے بھی مترادف ہو گا۔ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان سیز فائر لائین پہ ایسا مقام طے کرنا جہاں دونوں طرف سے کشمیری جمع ہو کر ایک دوسرے سے ملاقات کر سکیں، کشمیریوں کی امنگوں کے منافی اور کشمیریوں سے بڑی زیادتی ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کے زخموں پہ نمک پاشی کے مترادف ہو گا۔آزاد کشمیر حکومت اور آزاد کشمیرکی سیاسی جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ یہی ہے کہ ریاست کے دونوں طرف کے باشندگان '' آر پار'' آنے جانے کے حق کا احترام کیا جائے اور ریاستی باشندگان کو ان کا یہ حق دیا جائے۔آزاد کشمیرحکومت اورپاکستان حکومت کے درمیان1949میں طے پائے معاہدہ کراچی کی رو سے مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان ، آزاد کشمیراور مقبوضہ جموں وکشمیر میں تحریک آزادی کے لئے کام کرنا آزاد کشمیرکی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔
اس قرار داد کے ذریعے آ زاد کشمیرکی قانون ساز اسمبلی کے ارکان کا متفقہ طورپر حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرنا کہ کرتاپورہ کی طرز پہ سیز فائر لائین، لائین آف کنٹرول پہ دونوں طرف کے کشمیریوں کی ملاقاتوں کے لئے ایک مقام قائم کرنا، ہر عنوان سے شرمناک،قابل مذمت اور کشمیرویوں کی امنگوں کے منافی ہے۔کشمیری انسان ہیں، کوئی جانور نہیں کہ ان کو کسی باڑے میں ملنے کا موقع دیا جائے ۔ یہ قرار داد اور اس قرار داد کا متفقہ منظور کیا جانا ان محترم ممبر کی تجویز ،اسمبلی ارکان کے کشمیری عوام کے مسائل ،اس انسانی مسلے کی شدت اور مسلہ کشمیر سے مکمل لاعلمی کا ننگا اور افسوسناک اظہار بھی ہے۔اس عاقبت نا اندیشی،نااہلی اور اپنے فرائض سے متعلق بے اعتنائی اور بے خبری پر مبنی اس قرار داد کی ہر کشمیری کو سختی سے مذمت کرنی چاہئے۔اس قرار داد کا آزاد کشمیراسمبلی میں پیش ہونا اور متفقہ طورپر منظور ہونا آزاد کشمیر حکومت، اسمبلی اور آزاد کشمیرکی سیاسی جماعتوں کی نااہلی ، انحطاط پذیری اور مجرمانہ غفلت کی ایک بڑی مثال ہے۔
واپس کریں