دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حبیب جالب ، پاکستانی اور کشمیری اپنے اس عظیم شاعر کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں
No image اسلام آباد (کشیر رپورٹ) پاکستان کے ایک عظیم عوامی انقلابی شاعر حبیب جالب کا آج یوم پیدائش ہے۔ حبیب جالب24مارچ1928کو پیدا ہوئے۔حبیب جالب نے اپنی شاعری کے ذریعے پاکستان میں غاصب اآمریت کے خلاف شاندا راور بے مثال کردار ادا کیا اور ان کی عوامی بالادستی کی انقلابی شاعری سے آمر حکمران خوفزدہ ہو جاتے تھے اوراسی کی پاداش میں انہیں کئی بار جیل میں قید کیا گیا اور کئی صعوبتیں اٹھانا پڑیں۔حبیب جالب کی شاعری آج بھی پاکستانی عوام ہی نہیں بلکہ آزادی کے لئے مصروف جدوجہد کشمیریوں کے لئے بھی مشعل راہ ہے۔پاکستانی اور کشمیری اپنے اس عظیم شاعر کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔
حبیب جالب 24 مارچ 1928 کو پنجاب، کے ایک گائوں ہوشیار پورمیں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ کراچی کے روزنامہ امروز میں بطور پروف ریڈر کام کیا۔ وہ ایک ترقی پسند مصنف تھے اور جلد ہی اپنی پرجوش شاعری سے عوامی حلقوں میں تیزی سے مقبول ہوتے گئے۔ انہوں نے سادہ زبان میں لکھا، سادہ انداز اپنایا اور عام لوگوں اور مسائل کو حل کیا۔ لیکن اس کے الفاظ کے پیچھے یقین، اس کی آواز کی موسیقی اور اس کی جذباتی توانائی کے ساتھ سماجی و سیاسی تناظر کی حساسیت نے عوام کو ہلا کر رکھ دیا۔جنرل ایوب، جنرل ضیاء کے خلاف بھی ان کی جدوجہد جاری رہی۔ حبیب جالب 12مارچ1993کو65سال کی عمر میں وفات پاگئے۔
مقبوضہ کشمیر میں عوامی سطح پہ حبیب جالب کے نام سے ایک فائونڈیشن بھی قائم ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل مقبوضہ کشمیر کی حبیب جالب فائونڈیشن کی طرف سے ایڈیٹر '' کشیر'' اطہر مسعودو انی کو خصوصی طور پر ارسال کردہ ایک پیغام میں اس بات پہ تشویش کا اظہار کیا گیا کہ حبیب جالب کی بیٹی، اہل خانہ شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں، اور ان کی طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ حکومت پاکستان حبیب جالب کی عظیم قومی خدمات کا احساس کرتے ہوئے ان کی اہل خانہ کی معاشی مشکلات دور کرنے کی اقدامات کرے۔
حبیب جالب نے فلسطینی عوام اور کشمیریوں کے لئے بھی شاعری کی، فلسطین کی آزادی کے لئے ایک کا ایک گیت''رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے، تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی''۔ حبیب جالب نے ریاض شاہد کی کشمیر سے متعلق معروف فلم '' یہ امن'' کے لئے بھی گیت لکھے جو بہت مشہور ہوئے، ''ظلم رہے اور امن بھی ہو کیا ممکن ہے تم ہی کہو'' ، '' آزادی کے ہر دشمن کے سر پہ موت کھڑی ہے''۔
واپس کریں