دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
لکھنئو عالمی اردو کانفرنس میں اردو صحافت کے دو سو سال پہ معصوم مرادآبادی کا مقالہ
No image لکھنئو(کشیر رپورٹ)لکھنئو میں منعقدہ بین الاقوامی اردو کانفرنس میں سینئر صحافی، ادیب اور محقق معصوم مرادآبادی نے اردو صحافت کے دوسوبرس کے عنوان سے اپنے برصغیر میں اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے کے حوالے سے اپنے مقالے میں کہا کہ اردو صحافت ایک بڑے مشن اور مقصد کے تحت وجود میں آئی تھی اسی لیے آج دوسوسال بعد بھی اس میں مقصدیت اور جرات اظہار پائی جاتی ہے اردو اخبارات ملک وقوم کے لیے جوابدہی کا صادق جذبہ رکھتے ہیں،انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے مشن سے دستبردار نہیں ہوں گے۔مولانا آزاد انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کیفی اعظمی اکیڈمی، لکھن میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اس ملک کی جدوجہد آزادی میں اردو صحافیوں نے جو قربانیاں دی ہیں، وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دہلی اردو اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمدباقر ملک کی آزادی پر قربان ہونے والے پہلے صحافی ہیں، جنھیں انگریزوں نے توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑادیا تھا۔ اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما 27مارچ 1822 کو کلکتہ سے شائع ہوا تھا۔
معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اردو صحافت کا ابتدائی دور بڑی آزمائشوں کا تھا۔وسائل محدود تھے اور مشکلات زیادہ تھیں۔مولانا آزاد کے اخبار الہلال کی ضمانت 17مرتبہ ضبط کی گئی، اس سے عاجز آکر انھوں نے البلاغ شائع کیا۔مولانا ظفرعلی خاں کو اپنے اخبارزمیندارکی ضمانتوں کے طورپر22ہزار روپے جمع کرانے پڑے جو ایک بڑی رقم تھی۔ مولانا محمدعلی جوہر کی نظربندی کے سبب ان کا نہایت مقبول اخبارہمدردبند ہوا۔
اردو صحافت مشکل ترین دور سے گزرکر آج جب رنگین طباعت، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے دور میں پہنچی ہے تو اس میں خوداعتمادی کا جذبہ دوسروں سے کہیں زیادہ ہے لیکن آج اردو صحافت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ قارئین کی دن بدن کم ہوتی ہوئی تعداد کا ہے۔ہندوستان کی جن ریاستوں میں اردو تعلیم کا معقول بندوبست ہے وہاں اردو صحافت کا مستقبل بھی محفوظ ہے، لیکن جہاں اردو تعلیم کا نظام ختم ہوگیا ہے وہاں اردو اخبارات وجرائد کے نئے قارئین نہیں پیدا ہورہے ہیں، جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔خاص طورپرشمالی ہند میں اردو اخبارات وجرائد کی سرکولیشن دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے اور کئی اخبارات وجرائدقارئین اور اشتہارات نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑگئے ہیں۔ یہ اردو صحافت کے لیے ایک ایسی سنگین صورتحال ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس اجلاس کی صدارت ممتاز ادیب اور استاد پروفیسر شارب ردولوی نے کی۔مہمان اعزازی کے طورپر کینڈا سے ڈاکٹر تقی عابدی، ایس ایم عادل حسن، پروفیسر رمیش دکشت شریک ہوئے۔ دوروزہ کانفرنس کی میزبانی سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر عماررضوی نے کی۔اس عالمی کانفرنس کا اہتمام قومی اردو کونسل، اترپردیش اردواکادمی اور فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔

واپس کریں