دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافت پر ہندوستانی حکومت کی سخت پابندیاں، ظلم وجبر کی بدترین صورتحال ہے۔ انورادھا بھسین
No image جموں(کشیر رپورٹ)مقبوضہ جموں وکشمیر کے معروف صحافی آنجہانی وید بھسین کی بیٹی اور معروف انگریزی روزنامہ'' کشمیر ٹائمز'' کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین نے ہندوستان کے وزیر اطلاعات انوراگ ٹھاکر کی طرف سے امریکی روزنامہ'' نیو یارک ٹائمز'' میں مقبوضہ کشمیر میں صحافت پر پابندیوںکے بارے میں شائع مضمون پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت کے وزیر اطلاعات کی پریشانی اور سخت ردعمل بھی میرے موقف کی تائید ہے۔ انورادھا بھسین نے '' دی وائر'' کے ایک وڈیو انٹرویو میں تفصیل سے بتایا کہ کشمیر میں صحافیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں نے میڈیا کو عملی طور پر خاموش کر دیا ہے،نگرانی میں کام کرتے ہیں، انہیں زبانی سمن اور تفتیش" کے ساتھ ساتھ چھاپوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان سے اکثر پولیس تصدیق کے لیے کہا جاتا ہے،صحافیوں کے دفاتر اور رہائشیوں پر این آئی اے کے چھاپے اکثر ہوتے ہیں،ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
انورادھا بھسین نے کہا کہ مودی حکومت کی جابرانہ میڈیا پالیسیاں کشمیری صحافت کو تباہ کر رہی ہیں، میڈیا کے اداروں کو حکومت کے منہ بند کرنے کے لیے ڈرا رہی ہیں،صحافیوں کی نگرانی کی جا رہی ہے، حکومت سازگار کوریج کو یقینی بنانے کے لیے میڈیا کے خلاف مضبوط ہتھیار استعمال کر رہی ہے، صحافیوں کو پولیس کی طرف سے معمول کے مطابق طلب کیا جاتا ہے، ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور انکم ٹیکس کی خلاف ورزیوں یا دہشت گردی یا علیحدگی پسندی جیسے الزامات کے ساتھ دھمکی دی جاتی ہے، کئی نامور صحافیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے بہت سے صحافیوں نے خود کو سنسر کیا یا صحافت کو ہی چھوڑ دیا ہے۔کشمیر میں صحافت کی تشویشناک حالت ہے، گرفتاریوں کے خوف سے کچھ بیرون ملک جلاوطنی اختیار کر چکے ہیں کم از کم 20 دیگر (نون فلائی لسٹ میں ہیں) تاکہ انہیں ملک چھوڑنے سے روکا جا سکے ہم خوف کے بادل کے نیچے کام کرتے ہیں۔
اس سوال کہ مرکزی وزیر داخلہ اور جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے بارہا کہا ہے کہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں اور اس لیے وہ ان کی صورتحال کے بیان کو جھوٹ سمجھیں گے، بھسین نے کہا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی ہیں، ان کا بڑا خوف یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے لیے قومی رہنما خطوط میں مجوزہ ترامیم کشمیر میں 2021 میں نافذ کیے گئے میڈیا قوانین سے بہت ملتی جلتی ہیں اور جس طرح کشمیر میں 2021 کے قوانین حکام کو کشمیر میں میڈیا مواد کو "جعلی" کے طور پر لیبل کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ خبریں، ادبی سرقہ اور غیر اخلاقی یا ملک دشمنی"، لگتا ہے کہ قومی رہنما خطوط نے حکام کو وہی اختیار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر قومی رہنما خطوط قانون بن جاتے ہیں تو "بقیہ ہندوستان کشمیر کی طرح نظر آسکتا ہے"۔وہ قومی مرکزی دھارے کے میڈیا پر بھی سخت تنقید کرتی تھیں جو ملک کے باقی حصوں کو کشمیر میں صحافت کی حقیقی اور مایوس کن حالت اور مرکز کے زیر انتظام علاقے میں صحافیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی اطلاع دینے میں ناکام رہا ہے۔
واپس کریں