دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سرکاری اخراجات میں کمی کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر تشکیل کردہ قومی کفائت شعاری کمیٹی کی اہم تجاویز
No image سلام آباد(کشیر رپورٹ)ملک میں اقتصادی بد حالی کی صورتحال میں سرکاری اخراجات میں کمی کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر قائم کردہ اعلی سطحی کمیٹی نے سرکاری اخراجات میں کمی کے لئے اپنی تجاویز پیش کر دی ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پہ19جنوری کو قومی کفائت شعاری کمیٹی کے قیام کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق سابق سول سرونٹ ناصر محمود کھوسہ کوکمیٹی کا کنوینئر،وزیر مملکت برائے خزانہ کو کو کنوینئر اور 13ممبر بنائے گئے۔
قومی کفایت شعاری کمیٹی (این اے سی) نے عوامی اخراجات میں کمی اور مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے جون 2024 تک اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں 15 فیصد اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی کی سفارش کی ہے۔اپنی تجویز میں، کمیٹی نے سول اور ملٹری بیوروکریٹس، ججوں اور معاشرے کے دیگر بااثر طبقات سے ایک سے زیادہ پلاٹ واپس لینے کی بھی سفارش کی۔ مہنگے داموں دئیے گئے تمام پلاٹوں کی وصولی اور بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے نیلام کر دیا جائے۔مزید یہ کہ اس نے ملک بھر میں گیس اور بجلی کے شعبوں میں پری پیڈ میٹر لگانے کی بھی سفارش کی ہے۔اپنی سفارشات میں، NAC نے وزارت خزانہ کو رپورٹ کے حتمی ورژن سے منسلک کرنے کے لیے ہر سفارش کے مالیاتی اثرات کا تعین کرنے کا کام سونپا ہے۔ ابتدائی تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ کمیٹی کی سفارشات پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہونے پر قومی خزانے کے 500 ارب روپے سے لے کر 1000 ارب روپے سالانہ کے وسائل کی بچت ہو سکتی ہے۔این اے سی نے غیر ملکی دوروں پر پابندی لگانے کی تجویز بھی دی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ مجاز اتھارٹی کی اجازت سے صرف لازمی دوروں کی اجازت دی جائے۔اس نے حکومت کے تمام درجوں پر ای پروکیورمنٹ سسٹم کو اپنانے کی سفارش کی ہے۔دیگر کے علاوہ این اے سی نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ وفاقی کابینہ کا حجم 30 ارکان سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ کسی مجبوری کی صورت میں وفاقی کابینہ کے دیگر ارکان کو بون کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے۔یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرقیادت حکومت ایسے وقت میں ان سفارشات کو کیسے منظور کرے گی جب حکومت نے متنازعہ پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے حصول کے پروگرام کو رواں مالی سال کے لیے 68 ارب روپے سے بڑھا کر 89 ارب روپے کر دیا ہے۔
ٹیکس دہندگان کا پیسہ سرکاری اخراجات سے بچانے کیلئے موجودہ حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی کفایت شعاری کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ جامع تجاویز میں فوج کے ایسے بجٹ میں 15 فیصد کٹوتی کا مطالبہ کیا گیا ہے جو غیر عسکری نوعیت کا ہے۔ وزارت دفاع نے اس قومی اہمیت کے معاملے میں اپنا حصہ ڈالنے پر اتفاق کیا ہے ۔اس حوالے سے سیکرٹری دفاع کی رائے ہے کہ دفاعی بجٹ میں کوئی بھی کٹوتی کرنے سے قبل وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے تفصیلا نظرثانی کریں۔ ان تجاویز میں کہا گیا ہے کہ کابینہ کا حجم کم کیا جائے، ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہ دیے جائیں، سرکاری خزانے سے کسی کو بھی پانچ لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دی جائے، سرکاری افسران کو بڑی گاڑیاں (اسپیشل یوٹیلیٹی وہیکلز یعنی ایس یو ویز) نہ دی جائیں، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، اعلی عدالتوں کے جوڈیشل افسران اور باوردی سروس والوں سے تمام مراعات، سیکورٹی، معاون اسٹاف اور یوٹیلیٹیز واپس لی جائیں۔تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہیں 15 فیصد کم کی جائیں، وفاقی و صوبائی سطح پر تمام وزارتوں، ڈویژنوں، محکموں ماتحت دفاتر، خودمختار اداروں، صوبائی حکومتوں اور بیرون ملک سفارتخانوں وغیرہ کا موجودہ بجٹ 15 فیصد کم کیا جائے، تمام سرکاری ملازمین، بیوروکریٹس، ججوں اور مسلح افواج کے افسران کو ایک سے زیادہ پلاٹس نہ دیے جائیں، اگر پہلے ہی ایک سے زیادہ پلاٹ الاٹ اور کوئی اضافی زمین الاٹ کی گئی ہے تو اسے منسوخ کرکے نیلامی کرائی جائے، سی پیک کے تحت خصوصی صنعتی زونز کے علاوہ کوئی نیا گرین فیلڈ پروجیکٹ شروع نہ کیا جائے، بھرتیوں پر پابندی عائد کی جائے اور سب کیلئے سیکورٹی پروٹوکول میں کمی کی جائے۔ پنشن کی حد مقرر کرنے اور دوسرے پلاٹ کی الاٹمنٹ پر پابندی کیلئے اعلی عدالتوں کے ججوں کا تعاون درکار ہوگا۔
اعلی عدالتوں کے ایک ریٹائرڈ جج کو دیگر مراعات اور سہولتوں کے علاوہ ماہانہ دس لاکھ روپے سے زیادہ پنشن ملتی ہے۔ کمیٹی یہ بات جانتی ہے کہ اخراجات کے معاملے میں ہاتھ تھوڑا کھینچنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تجاویز میں کمیٹی کا کہنا ہے کہ ان پر عملدرآمد مشکل کام ہے لیکن ملک کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص ایسے لوگوں کو کفایت شعاری مہم میں تعاون کرنا ہوگا جو لوگ قومی خزانے سے ادائیگی وصول کرتے ہیں۔ تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہفتے میں ایک دن گھر سے کام کرایا جائے اور دفاتر میں صرف ضروری اسٹاف کو آنے دیا جائے، دن کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کیلئے اقدامات کیے جائیں، ملک بھر میں مارکیٹس رات 8 بجے بند کر دی جائیں، اور توانائی بچانے والے برقی آلات کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ان تجاویز پر عملدرآمد کی روشنی میں کمیٹی کو توقع ہے کہ تقریبا ایک ہزار ارب روپے کی سالانہ بچت ہوگی۔ متوقع سالانہ بچت میں 200 ارب روپے سبسڈیوں سے بچت ہوگی، 200 ارب روپے کی ترقیاتی بجٹ کی مد میں بچت ہوگی، 55 ارب روپے سویلین حکومت چلانے کے اخراجات کی مد میں بچت ہوگی، 60 سے 70 ارب روپے سنگل ٹریژری اکاونٹ متعارف کرانے سے بچت ہوگی، 100 ارب روپے متفرق بچت کے نتیجے میں حاصل ہوں گے، 174 ارب روپے غیر اسٹریٹجک نوعیت کے سرکاری اداروں سے بچ جائیں گے جبکہ 15 فیصد کٹوتی سے نان کامبیٹ نوعیت کے دفاعی اخراجات کی مد میں بچت ہوگی۔
وزیراعظم شہباز شریف کمیٹی کی تجاویز سے پہلے ہی اتفاق کر چکے ہیں اور اگر ان پر عملدرآمد ہوا تو حکمران اشرافیہ، ارکان پارلیمنٹ، ججز، سویلین اور ملٹری افسران ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے جن سہولتوں، مراعات اور تعیشات سے لطف اندوز ہوتے ہیں ان میں بھاری کٹوتی ہو جائے گی۔ کفایت شعاری کی اس مہم کیلئے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول وزیراعظم اور ان کی کابینہ، ارکان پارلیمنٹ، ججز، سویلین اور ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ سبھی مل کر تعاون کریں۔

واپس کریں