دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بھارتی فوج کی پاکستانی سرحد اور کشمیر کی سیز فائر لائین کے ساتھ جنگی مشقیں، مقصدآزاد کشمیر پہ سرپرائز اٹیک ہو سکتا ہے۔ بی بی سی رپورٹ
No image لندن ( کشیرر رپورٹ) برطانیہ کے سرکاری میڈیا ادارے ' بی بی سی' نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی فوج پاکستان سے ملنے والی سرحد اور کشمیر کو غیر فطری اور کشمیریوں کو جبری طور پر تقسیم کی جانے والی سیز فائر لائین لائین لائین آف کنٹرول پہ جنگی مشقیں کر رہی ہے اور ان جنگی مشقوں کا مقصد پاکستان کے خلاف آزاد کشمیر میں سرپرائز اٹیک ہو سکتا ہے۔
' بی بی سی'نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ انڈیا کی بارڈر سکیورٹی فورس یعنی بی ایس ایف کی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر، راجھستان اور گجرات میں پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر اوپس الرٹ کے نام سے سات روزہ دفاعی فوجی مشقیں جاری ہیں۔بی ایس ایف کا کہنا ہے کہ ان مشقوں کا مقصد 26 جنوری کو انڈیا کے یوم جمہوریہ کے موقع پر وطن دشمن قوتوں کی طرف سے ممکنہ حملوں کا پیشگی سدباب کرنا تھا۔انڈیا نے فی الحال سیاسی یا فوجی سطح پر براہ راست پاکستان کا نام تو نہیں لیا گیا تاہم یہ پہلا موقع تھا کہ یوم جمہوریہ سے قبل انڈیا اور کشمیر کے سرحدی شہروں اور قصبوں میں ناکہ بندی اور تلاشی کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر دفاعی مشقیں کی جا رہی ہیں۔
انڈیا کی جانب سے سرحدوں پر مسلح تشدد کے خدشات کا اظہار ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے انڈیا کو تعلقات کی بہتری کے لیے متحدہ عرب امارات کی وساطت سے بامعنی مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے اور امریکہ کے دفتر خارجہ نے اس پیشکش کے ردعمل میں دونوں ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ جنوب ایشیا میں امن و استحکام کے لیے اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں۔بی بی سی نے اس معاملے پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے رابطہ کیا تاہم دونوں اداروں کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔تاہم گذشتہ روز پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) نے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے خبر دی کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں نے کامیابی سے انڈیا کے ایک فالس فلیگ آپریشن کا منصوبہ ناکام کیا ہے جس کے تحت انڈیا کے یوم جمہوریہ کے موقع پر (انڈیا کے زیر انتظام) کشمیر میں مبینہ در اندازی کا ڈرامہ لائن آف کنٹرول کے پونچھ سیکٹر میں پلان کیا گیا تھا۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تعینات بی ایس ایف کے ایک اعلی افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم نے یہ مشقیں پیشگی تیاری کے طور پر شروع کی ہیں۔ سیاسی سطح پر جو بھی باتیں ہو رہی ہیں اس سے قطع نظر سکیورٹی کے معاملے پر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے۔بی ایس ایف کا دعوی ہے کہ خطرے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران گجرات کے ساحلوں پر 22 پاکستانی مچھیروں کو گرفتار کیا گیا۔واضح رہے گجرات کے رن آف کچھ اور راجھستان کے بارمر سیکٹروں میں ان دفاعی مشقوں کا آغاز 21 جنوری سے ہوا ہے اور یہ 28 جنوری تک جاری رہیں گی۔ انڈین وزارت داخلہ نے پہلے ہی ان سیکٹروں میں اونچے واچ ٹاور تعمیر کرنے کے لیے 50 کروڑ روپے کی رقم منظور کی ہے۔بی ایس ایف کا دعوی ہے کہ خطرے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران گجرات کے ساحلوں پر 22 پاکستانی مچھیروں کو گرفتار کیا گیا، 79 پاکستانی ماہی گیری کی کشتیاں ضبط کی گئیں جبکہ 250 کروڑ روپے مالیت کی منشیات انڈیا کی سرحدوں میں سمگل کرنے کی کوششیں بھی ناکام کی گئیں۔
جموں کے راجوری ضلع کے پولیس افسر حسیب مغل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ یکم جنوری کو نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے تین گھروں میں داخل ہو کر دو بچوں سمیت سات ہندو شہریوں کو ہلاک کرنے کے واقعے کے بعد ویلیج ڈیفنس گارڈز (وی ڈی جی) کو ایک بار پھر نئے اور جدید ہتھیاروں اور تربیت کے ساتھ مسلح کیا جا رہا ہے۔ یعنی ایل او سی کے قریبی اضلاع میں اقلیتوں میں ہتھیار تقسیم کیے جا رہے ہیں۔انڈیا کی سیاسی اور فوجی قیادت گذشتہ چند ماہ سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملے کی باتیں اور اسے حاصل کرنے کی باتیں کر رہی ہے ۔جموں کشمیر میں مسلح حملوں کے لیے انڈین حکام پاکستان کو ہی ذمہ دار قرار دیتے آئے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ فروری 2020 میں دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کو مستحکم کرنے کا نیا معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد سے سرحدوں کے قریب صورتحال مجموعی طور پر پرسکون رہی ہے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کی سرحدوں پر جنگ بندی کے باوجود تنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔صحافی اور تبصرہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں کہ جنگ بندی کا معاہدہ جموں کشمیر تک محدود ہے۔ انڈئا کے سکیورٹی پالیسی سازوں کو لگتا ہے کہ پاکستان جموں کشمیر سے باہر والی سرحدوں پر انڈین سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انڈین فوج کوئی چانس نہیں لینا چاہتی۔ہارون کا مزید کہنا ہے کہ انڈیا کی سیاسی اور فوجی قیادت گذشتہ چند ماہ سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملے کی باتیں اور اسے حاصل کرنے کی باتیں کر رہی ہے۔
جب وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بھی یہ اشارہ دیں اور فوجی سربراہ بھی یہ کہہ دیں کہ وہ بالکل تیار ہیں تو ایسے ایک جنگی ماحول خود بخود بن جاتا ہے۔ ان بیانات پر پاکستان نے کوئی خاص جذباتی ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ الٹاوزیراعظم) شہباز شریف نے حال ہی میں مشروط مذاکرات کی پیشکش کر ڈالی۔ یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ فوج کسی سرپرائز اٹیک کے لیے پیشگی تیاری کر رہی ہے۔اس دوران انڈین فوج نے انکشاف کیا ہے کہ بری اور بحری فوج نے فضائیہ کے اشراک سے آندھرا پردیش کے ساتھ لگنے والی چینی سرحدوں کے قریب17 سے 22 جنوری تک مشترکہ مشقیں بحرہند کے کاکی نڈا سیکٹر میں منعقد کی ہیں۔ایک فوجی ترجمان کے مطابق ان مشقوں کا مقصد فوج کی سبھی اکائیوں کو ایک ساتھ دفاعی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے تیار کرنا ہے۔ یہ مشقیں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب بحرہند میں چین کی فوجی مداخلت پر انڈیا سخت ردعمل ظاہر کر چکا ہے۔

واپس کریں