دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
برطانوی سرکاری میڈیا ادارے 'بی بی سی' کی فلم رپورٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارت کی نام نہاد جمہوریت کو عالمی سطح پر عریاں کر دیا، رپورٹ میں انسانیت کش واقعات کے ہوشربا انکشافات
No image لندن20جنوری (کشیر رپورٹ)برطانیہ کے سرکاری میڈیا ادارے'' برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن'' (بی بی سی) نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندووانہ انتہا پسندی اور ان کے قاتلانہ چہرے کو عریاں کردیا ہے۔ '' بی بی سی'' کی وڈیو رپورٹ کے نشر ہونے پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف وزیر اعظم نریندر مودی کی ' بی جے پی ' حکومت کی گجرات اور کشمیر میں سرکاری سطح پہ قتل و غارت گری کی کاروائیاں بے نقاب ہونے اور ایک اہم و موثر عالمی میڈیا ادارے کی تصدیق سے بھارت کی نام نہاد جمہوریت عالمی سطح پہ رسوا ہو گئی ہے۔
برطانوی بر اڈ کاسٹنگ کارپوریشن(بی بی سی) کی دستاویزی فلم میں بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد میں وزیر اعظم نریندر مودی کے کردار کے بارے میں تحقیق پیش کی گئی ہے۔ فلم میں کھل کر اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ نریندر مودی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کیلئے براہ راست ذمہ دار ہیں۔انڈیا: دی مودی کوئسچن کے عنوان سے جاری دستاویزی فلم میں گجرات فسادات کو مسلمانوں کی نسل کشی کا نام دیا گیا ہے ۔یہ دستاویزی فلم 2002کی حکومت برطانیہ کی طرف سے قائم کی گئی ایک خفیہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹس پر مبنی ہے ۔ یہ رپورٹس پہلے کبھی منظر عام پرنہیں آئیں اور نہ ہی انہیں اب تک کہیں شائع یا ظاہر کیا گیا ہے۔ ان رپورٹس میں رونگٹے کھڑے کر دینے والی تفصیلات موجود ہیں جوگجرات کے مسلمانوں کے قتل عام اور اس قتل عام میں نریندر مودی کے کردار سے متعلق ہیں۔ یہ رپورٹس ایسے تمام سلسلہ وار واقعات کا حوالہ دیتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تشدایک منصوبہ بند مہم کے تحت کیا گیااو یہ اپنے پیچھے مسلمانوں کی نسل کشی کے تمام نشانات چھوڑ گیااور اسکے لیے صرف اور صرف مودی ذمہ دارہیں ۔
دستاویزی فلم میں برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ جیک اسٹرا(2001تا2006)کا یہ بیان بھی موجود ہے کہ ہم نے ایک تحقیقاتی ٹیم کو گجرات بھیجاجس نے بہت اچھے طریقے سے اپنا کام کیا اور تحقیقات کے بعد اس نے جو رپورٹ پیش کی وہ مکمل اور بھر پور تھی، اس رپورٹ میں کہا گیا کہ تشدد کی حد اطلاعات سے کہیں بڑھ کر تھی اور مسلم خواتین کے ساتھ بڑے پیمانے پر اور منظم طریقے سے بھیانک اور خوفناک زیادتی کی گئی، یہ تشدد سیاسی محرکات پر مبنی تھا۔ رپورٹ میں مزید کیا گیا کہ فسادات کا مقصد ہندو علاقوں سے مسلمانوں کا صفایا کرنا تھا۔دستاویزی فلم میں ایک سابق برطانوی سفارت کار نے جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا ، کہا کہ تشدد کے دوران کم از کم 2 ہزار افراد کا قتل کیا گیا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ، انہوں نے کہا کہ ہم اسے قتل عام قرار دیتے ہیں جو دانستہ اور سیاسی محرکات پر مبنی تھا اور جس میں برسرعام مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ سابق سفارتکار نے بتایا کہ یہ تشدد ایک انتہا پسند ہندو قوم پرست گروپ وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے برپا کیا ۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ وی ایچ پی ،اسکے اتحادی ، ریاستی حکومت کی طرف سے ملی چھوٹ کے بغیر اتنا خوفناک تشدد برپا نہیں کر سکتے تھے۔یاد رہے کہ گجرات میں 2002میں مسلم کش فسادات میں ہزاروںمسلمان قتل کیے گئے ۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلی تھے۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی پر دو اقساط پر مشتمل ایک سیریز کا اجرا کیا ہے۔ سیریز کا نام انڈیا، دی مودی کوئسچن رکھا گیا ہے جو پیش کیے جانے کے ساتھ ہی بھارت میں تنقید کا شکار ہے۔ بی بی سی کی جانب سے پیش کی جانے والی اس سیریز میں گجرات کے قصائی اور بھارتی ہٹلر مودی کی حقیقت کا کھوج لگانے کی کوشش کی گئی ہے اور مقبوضہ کشمیر، بھارتی مسلمانوں، گجرات قتلِ عام، ہندو انتہا پسندی و دیگرعوامل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نریندر مودی دنیا کی بڑی جمہوریت کے رہنما، دو بار منتخب وزیر اعظم اور طاقتور شخص ہیں، مغرب ان کو چین کے خلاف مضبوط مہرہ جبکہ امریکا اور برطانیہ اہم اتحادی سمجھتے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق مودی حکومت میں مسلمانوں سے روا سلوک پر متواتر الزامات لگائے گئے، یہ سلسلہ وار کہانی انہی الزامات کے پسِ پردہ حقائق کی تحقیقات کرے گی اور مودی کی سیاست پر مختلف سوالات کی پسِ پردہ حقیقت جاننے کی کوشش ہے۔ ادارے کا مزید کہنا تھا کہ اس کا مقصد گجرات کی ریاست کا وزیر اعلی بننا اور 2002 کے فسادات کی حقیقت جاننا ہے، مقبوضہ کشمیر پر شب خون مارنا، آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور شہریت قانون کی جانچ ہے۔ اس سیریز کے حوالے سے بھارت میں انسانی حقوق کے مایہ ناز کارکن اور ماہر تعلیم اشوک سوائن نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ بی بی سی کی انکوائری ٹیم کو مودی سرکار کیخلاف واضح ثبوت ملے ہیں۔اشوک سوائن نے لکھا کہ 2002 کے مسلم کش فسادات کے دوران مودی نے خود گجرات پولیس کو وہ قتل عام روکنے کیخلاف کارروائی سے روکا تھا۔ بھارت سے ہی تعلق رکھنے والی صحافی اور نقاد اینا میری میتھیو نے بھی ایک ٹویٹ کیا، ان کا کہنا تھا کہ عینی شاہدین کے بیانات کے علاوہ بھی بات کریں تو اس سیریز میں 2002 کے گجرات فسادات کے حوالے سے برطانوی سرکار کی اب تک کی غیرمطبوعہ معلومات کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے جب جیک سٹرا برطانوی فارن سیکرٹری تھے۔بی بی سی کی اس سیریز کے حوالے سے عینی شاہدین سمیت سب یہی سب بیان کرتے ہیں جو اس ڈاکومنٹری میں دکھایا گیا ہے۔
'' بی بی سی'' کی اس رپورٹ کے سامنے آنے پر برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سینک کی طرف سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دفاع کی کوشش بھی سامنے آئی ہے اور اس سے ایک بار پھر ثابت ہوا ہے کہ ہندوستانی نژاد رشی سینک برطانوی عوام ، برطانوی معاشرے اور برطانوی ملک کی نمائندگی سے زیادہ ہندوستان کی انہتا پسند جماعتوں اور پالیسیوں کی ترجمانی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ رشی سینک ایک بنیاد پرست ہندو ہیں اور انہوں نے برطانیہ کا وزیر اعظم بننے کے بعد مستقل طور پر اپنے ہاتھ کی کلائی میں لال دھاگہ باندھا ہوا ہے جو ہندوانتہا پسندی کی نشانی ہے۔
واپس کریں