دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سابق جنرل باجوہ ، فیض حمید نے کشمیر کا مسئلہ 20سال جوں کا توں رکھنے سے اتفاق کیا۔ حامد میر کا نئے کالم میں دعوی
No image اسلام آباد(کشیر رپورٹ)پاک فوج کے سابق سربراہ قمر جاوید باجوہ نے بھارت کے ساتھ ' بیک ڈور ' مزاکرات کئے اور بھارت کو کشمیر کے لئے20سال دینے کا فیصلہ کیا۔ معروف صحافی حامد میر نے روزنامہ ' جنگ ' میں شائع ہونے والے اپنے نئے کالم بعنوان''تھوڑی سی سچائی'' میں لکھا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کے ساتھ بیک چینل کھول لیا،عمران خان نے باجوہ کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے معاملات سے دور رکھنے کے لئے انہیں بھارت کے ساتھ بیک چینل مذاکرات جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ اس بیک چینل کے تحت نومبر 2018 میں کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ فروری 2019 میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک خودکش حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے علاقے بالا کوٹ پر فضائی حملہ کردیا۔ پاکستان ایئر فورس نے بھارت کے فضائی حملے ناکام بنا دیئے اور ایک بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار کرلیا۔ امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت پر پاکستان نے بھارتی پائلٹ کو رہا کردیا۔ اس دوران جون 2019 میں آئی ایس آئی کے سربراہ سید عاصم منیر کو اچانک تبدیل کردیا گیا کیونکہ وہ عمران خان کو بھی ناپسند تھے اور باجوہ صاحب کے بیک ڈور چینل کے لئے بھی نامناسب تھے۔ ان کی جگہ فیض حمید کو لایا گیا۔ انہی دنوں جنرل باجوہ نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ بھارت کے ساتھ کوئی بریک تھرو ہونے والا ہے۔ 25 جولائی 2019 کو میں نے اپنے جنگ کے کالم میں خبردار کیا کہ مودی پر اعتماد نہ کیا جائے مودی پاکستان کو گھیر کر کشمیر پر ڈپلومیٹک سرنڈر کرانا چاہتا ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مارشل لانافذ کردیا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف ایک تفصیلی رپورٹ جاری ہو چکی تھی اور پاکستان اس پر بہت شور مچا سکتا تھا لیکن 9 نومبر 2019 کو یوم اقبال پر عمران خان سے کرتار پور راہداری کا افتتاح کروا دیا گیا۔
حامد میر مزید کہتے ہیں کہ میں نے ایک آف دی ریکارڈ بریفنگ میں پاکستان کی کشمیر پالیسی پر سوالات اٹھائے تو باجوہ صاحب ناراض ہوگئے اور انہوں نے ٹی وی چینلز کے مالکان کے ساتھ ایک ملاقات میں مجھ پر الزام لگا دیا کہ میں نے تو اجمل قصاب کے گائوں جا کر کوئی پروگرام کیا تھا حالانکہ یہ بالکل جھوٹ تھا۔ پھر ایک ٹی وی چینل نے مجھے بھارتی ایجنٹ قرار دے دیا اور اسی چینل پر مجھے توہین رسالت کا مرتکب قرار دے دیا گیا۔ کشمیر پالیسی پر سوالات مجھے بہت مہنگے پڑے۔ یہ وہ وقت تھا جب مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق کے سوا اکثر سیاسی قائدین کشمیر پر خاموش تھے اور پھر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے عمران خان کے ساتھ مل کر باجوہ صاحب کو ایکسٹینشن دے دی۔ ایکسٹینشن کے بعد باجوہ صاحب کا نشانہ حریت کانفرنس کے رہنما سید علی شاہ گیلانی تھے۔ پاکستان میں ان کے نمائندے عبداللہ گیلانی کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن قصہ مختصر یہ کہ علی گیلانی صاحب حریت کانفرنس سے علیحدہ ہوگئے۔ فروری 2021 میں پاکستان اور بھارت نے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا اعلان کردیا۔ 23مارچ 2021 کو نریندر مودی نے یوم پاکستان پر عمران خان کو خط لکھ دیا تو پاکستان کے دفتر خارجہ کے کان کھڑے ہوگئے۔ امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کے ذریعہ یہ خبر نکلی کے دبئی میں فیض حمید اور اجیت ڈوول کے درمیان خفیہ بات چیت بہت آگے جا چکی ہے۔
ایک دن باجوہ صاحب وزیر اعظم کے پاس آئے اور بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 9 اپریل 2021 کو پاکستان آئیں گے۔ مودی پہلے تو بلوچستان کے پہاڑی علاقے لسبیلہ میں دریائے ہنگول کے کنارے ہنگلاج ماتا کے مندر جائیں گے اور وہاں ہندوئوں کے سالانہ میلے میں شرکت کریں گے پھر اسلام آباد آئیں گے اور عمران خان کے ساتھ ملاقات میں پاک بھارت تجارت اور کرکٹ میچوں کی بحالی کا اعلان کریں گے۔ عمران خان کو بتایا گیا کہ ہنگلاج ماتا کے مندر کو بلوچستان میں بی بی نانی کی زیارت بھی کہا جاتا ہے اور کرتار پور راہداری کی طرز پر راجھستان اور بلوچستان کے درمیان ہنگلاج راہداری بھی کھولی جا سکتی ہے۔ خان صاحب نے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا؟ فیض حمید نے انہیں بتایا کہ بیس سال تک مسئلہ کشمیر جوں کا توں رہے گا اور بیس سال کے بعد کوئی حل تلاش کریں گے۔ستمبر 2021 میں عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سیشن میں کشمیر پر پاکستان کا پرانا روایتی موقف دہرا کر باجوہ کو مایوس کردیا لیکن باجوہ صاحب بیک چینل کے ذریعہ بھارت کو امید دلاتے رہے کہ فکر نہ کریں اپریل 2022 میں بریک تھرو ہو جائے گا۔
واپس کریں