دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیر کی ایک ان پڑھ صوفیانہ شاعرہ نے اپنی شاعری کو محفوظ کرنے کے لئے دائروں کی شکل میں ایک نئی زبان تخلیق کر لی
No image سرینگر(کشیر رپورٹ)مقبوضہ کشمیر کی ایک ان پڑھ خاتون شاعرہ نے اپنی صوفیانہ شاعری کو محفوظ کرنے کے لئے دنیا کی ایک نئی منفرد زبان ایجادکی ہے ۔ دائروں میں تحریر کردہ اس شاعری کو صرف وہی پڑھ سکتی ہیں۔ ظریفہ جان نامی اس خاتون کی کشمیری زبان کی شاعری کشمیر کے ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہو چکی ہے۔جرمن نشریاتی ادارے '' ڈائوچ آف ویلے'' نے ظریفہ جان کے بارے میں ا پنی ایک خصوصی وڈیو رپورٹ میں بتایا کہ ظریفہ جان نے اپنی ابتدائی شاعری ضائع ہوجانے اور پڑہنے لکھنے کی صلاحیت نہ ہونے کی صورتحال میں اپنی شاعری کو محفوظ بنانے کے لئے از خود ایک نئی زبان ایجاد کر لی جو دائروں کی شکل میں ہے اور اسے صرف وہی پڑھ سکتی ہیں۔
ظریفہ جان نے بتایا کہ انہوں نے تعلیم حاصل نہیں کہ اور انہیں پڑہنا ، لکھنا نہیں آتا ،گھر والوں نے ان کی شاعری کو ٹیپ ریکارڈر میں ریکارڈ کرنا شروع کیا لیکن اس سے ظریفہ جان کو اطمینا ن نہیں ہوا، اس پر میں نے دائروں کی شکل میں پانی شاعری کو تحریر کرنا شروع کر دیا اور اسے میں بخوبی سمجھ اور پڑھ سکتی ہوں، اس سے میری شاعری میں وزن، ردیف اور قافیہ برابر رہتا ہے۔ شمالی کشمیر کے ایک چھوٹے سے گائوں سے تعلق رکھنے والی ظریفہ جان کا کلام درجنوں کی تعداد میں، ان کی ایجاد کردہ دائروں کی شکل میں تحریر کی صورت موجود ہے۔کسی کوڈڈ زبان میں تحریر کرنے والی وہ دنیا کی واحد شاعرہ ہیں۔ظریفہ جان دنیا کی وہ واحد انسان ہیں جنہوں نے ایک نئی تحریری زبان ایجاد کی ہے۔ادھیڑ عمر کی ظریفہ جان کا کہنا ہے کہ ان پہ اشعار کی آمد ہوتی ہے،جب اشعار کی آمد ہوتی ہے تو وہ بے خودی کی کیفیت سے دوچار ہو جاتی ہیں،اس کیفیت سے نکلنے کے بعد وہ اپنی شاعری کو دائروں کی شکل میں تحریر کرتی ہیں۔ ظریفہ جان کے بیٹے شفاعت لون نے بتایا کہ جب ان کی والدہ پہ اشعار کی آمد ہوتی ہے تو ان کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے ،وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتی ہیں، ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے، ہم کئی بار انہیں اس حالت میں دیکھ کر ڈر جاتے تھے۔
تصوف میں مذہبی زندگی کے باطنی پہلوئوں پر زیادہ توجہ ہوتی ہے،جو روحانیت کی طرف راغب کرتا ہے، ان کے کلام میں بھی یہی پہلو نمایاں ہے۔ان کے کلام میں محبت، آرزوئیں،تمنائیں، سبھی احساسات اپنے صوفیانہ پس منظر کے ساتھ ملتے ہیں۔ظریفہ جان اپنی کشمیری زبان کی شاعری میں کہتی ہیں،

میری منتوں اور آہ و زاریوں کے بعد بھی آپ نہیں آئے
آپ کی واپسی میرے دکھ درد کی مداوا تھی، آپ نہیں آئے
دل توڑنا اورپھر روٹھ جانا، درست ہے کیا
شکاری کے تیروں سے بچانے بھی، آپ نہیں آئے.
میری منتوں اور آہ و زاریوں کے بعد بھی آپ نہیں آئے
آپ کے پیچھے ہی شب و روز تو منڈلاتی رہی میں
بھر کے پیمانے، میخانے بھی سجائے ہم نے، آپ نہیں آئے
میری منتوں اور آہ و زاریوں کے بعد بھی آپ نہیں آئے
حال یہ ہے ظریفہ کی بے قراری کا
محبت کے زخموں سے خون جاری ہے، آپ نہیں آئے
میری منتوں اور آہ و زاریوں کے بعد بھی آپ نہیں آئے
آپ کی واپسی میرے دکھ درد کا مداوا تھی، آپ نہیں آئے

بعض علم دوست افراد کی کاوشوں سے ظریفہ جان کا کچھ کلام تحریری طور پر کشمیری زبان میں منتقل ہو چکا ہے۔تاہم ان کی ڈیڑھ سو نظمیں اور غزلیں اب بھی ان کی ایجاد کردہ دائروں کی شکل کی تحریر میں موجود ہیں جنہیں صرف وہی پڑھ سکتی ہیں۔
واپس کریں