دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہیں لیکن دیوالیہ ہونے کا خطرہ بالکل نہیں ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی تقریب سے خطاب
No image اسلام آباد (کشیر رپورٹ)وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہیں لیکن دیوالیہ ہونے کا خطرہ بالکل نہیں ہے۔پاکستان کے معاشی معاملات مشکل ضرور ہیں لیکن کنٹرول میں ہیں، ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا،ہم مدد کے لیے پیرس کلب نہیں جائیں گے، آنے والے چند ماہ میں پاکستان کی پوزیشن واضح ہو جائے گی، میں پاکستان کے ایشوز کو حل کر رہا ہوں، یہ ماضی کا پاکستان نہیں، ملک کیوں ڈیفالٹ کرے گا۔اسحاق ڈار نے بدھ کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی اسمگلنگ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ فارن اکانٹس میں سرمایہ کاری اور فارن ایکسچینج کا باہر جانا تشویش ناک عمل ہے۔ ڈالر اور کھاد کی اسمگلنگ کے لیے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ منصوبہ بنا لیا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ سیاسی گیم اسکورنگ کرکے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا گیا ہے، لوگوں کوخوف زدہ کیا ہوا ہے، کوئی سونا تو کوئی ڈالر خرید رہا ہے، پاکستان کے لیے31ارب ڈالرز کا بندوبست کرنا ہے۔موجودہ صورتِ حال میں توانائی بحران کی وجہ سے برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی ترقی دنیا دیکھے گی،پاکستان کے لیے31ارب ڈالرز کا بندوبست کرنا ہے۔موجودہ صورتِ حال میں توانائی بحران کی وجہ سے برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے درآمدات سے متعلق نیا سرکلر جاری کر دیا ہے، جس میں درآمدات پر عائد پابندیوں کو ہٹا دیا گیا ہے اور درآمد کنندگان کو ریلیف دے دیا ہے جب کہ توانائی، فارما اور اسپیئر پارٹس کی درآمدار پر عائد پابندیاں بھی ختم کر دی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ انٹر بینک میں ڈالر کی قدر اس وقت بلند ہے لیکن روپے کی بے قدری بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور مستحکم رکھنا حکومت کی بہتر پالیسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کو 3500 ارب روپے کی چھ سال میں ضرورت ہے۔ پانچ ماہ میں کرنٹ اکانٹ خسارے کو کم کیا ہے جب کہ پاکستان کی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔معیشت پر جو تجربے ہوئے اس کا جوابداہ میں نہیں ہوں، ڈالر کی ہمسایہ ملک کو اسمگلنگ ایک بڑا مسئلہ ہے، ہمیں ڈالر، گندم اور کھاد کی اسمگلنگ کو روکنا ہے، اگلے 6 سے 7 سال میں پاکستان کو 35 ارب ڈالرز کی ضرورت ہو گی۔
وزیر خرانہ اسحاق ڈار نے اپنے ورچوئل خطاب میں کہا کہ دیوالیہ ہونے کی باتیں کرنے والے نام نہاددانشوروں کوناکامی اورمایوسی ہوگی ،پاکستان کو مشکلات کے بھنورسے نکالنا ہے،اقتصادی زونز میں پیش رفت ہورہی ہے ، زراعت کیلئے پیکج دیا گیا،حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارے کو 8 فیصد سے نیچے لانا ، پرائمری بیلنس کوسرپلس اور سٹاک ایکسچینج کوبہتر بنانا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے سابق حکومت نے دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ کوبھی نظراندازکیا، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن گزشتہ دوسالوں سے بدقسمتی سے فعال نہیں تھا، موجودہ حکومت نے شفاف عمل کے ذریعے اسے مکمل کیا ، ایس ای سی پی کے قوانین میں ہم نے ترامیم کیں۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ کسی بھی ملک کے سمت کو درست اورمثبت راہ پرگامزن کرنے میں سٹاک ایکسچینج کا اہم کردار ہوتا ہے، ہماری گزشتہ حکومت نے کارپوریٹ شعبیمیں اصلاحات کیں، کمپنی آرڈی ننس میں ترامیم کی گئیں ان اصلاحات سے سٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا کی بہترین سٹاک مارکیٹ بن گئی ، اس شعبہ کی ترقی ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں اورمل کر اس شعبے کوترقی کی راہ پرگامزن کریں گے ۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ کارپوریٹ شعبے کے ٹیکس سے متعلق معاملات ایف بی آر کے سامنے رکھے جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تاجر اورصنعت کارکمیونٹی ملک کے ساتھ کھڑی ہے جب پاکستان 2013 میں میکرواکنامک عدم استحکام کا شکارتھا اوریہ بات کہی جارہی تھی کہ جوبھی حکومت بنے گی وہ 6 سے 8 ماہ میں ڈیفالٹ ہوجائیگی مگر پاکستان کی بزنس کمیونٹی نے حکومت کا ساتھ دیا اور تین سال کے عرصہ میں ہمارے معاشی اشاریئے درست ہوگئے ، افراط زرکی شرح 4.6 فیصد ہوگئی ، خوراک کی افراط زرکی شرح 2 فیصد تھی ،ہماری سٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا کی بہترین سٹاک مارکیٹ بن گئی پاکستانی کرنسی دنیا کی بہترین کرنسیوں کی دوڑ میں شامل ہوگئی ، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں خاطرخواہ اضافہ ہوا، 100 ارب ڈالرکی مارکیٹ کیپٹلائزیشن ہوئی۔انہوں نیکہا کہ یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ گزشتہ چارسالوں میں 70 ارب ڈالرکی مارکیٹ کیپٹلائزیشن کیوں متاثرہوئی، ہم نے جواقدامات کئے اس کے تحت 2030 میں پاکستان نے دنیا کی 20 بہترین معیشیتوں میں جانا تھا ،ہمیں سوچنا چاہئیے کہ گزشتہ چاربرسوں میں ایسا کیا ہوا کہ ہم اب ایک ایک ڈالر کیلئے بھاگ ڈور کررہے ہیں۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ پاکستان کامستقبل بہترین اورشاندارہے، معشیت کو پائیدار اورلچکدار بنانا ہوگا ، میں روزسنتا ہوں کہ ملک دیوالیہ ہورہاہے ، میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا اس بات کاکوئی امکان نہیں ، ہمیں مسائل درپیش ہیں مگران مسائل پرقابوپایا جارہاہے ، یقینی بنائیں گے کہ ملک کوآگے لیکر جائیں، ہم ہوں یا نہ ہوں مگرملک کا مستقبل روشن ہے،ہم سب مل کرملک کودرست راہ پرگامزن کریں گے ۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ اسی طرح پاکستان کے ساورن بانڈز کی ادائیگی کے حوالہ سے قیاس آرائیاں ہوئیں کہ اس کی ادائیگی نہیں ہوگی ،یہ قیاس آرائیاں نام نہاددانشوروں نے پھیلائیں، یہ وہی لوگ ہیں جو اس ملک کو اس نہج پرلانے کے ذمہ دارہیں ۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ مسئلہ ہے کہ ہم سستی سیاست اورمفادات کیلئے اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے جی ڈی پی کے حوالہ سے قرضوں کی شرح 72فیصد ہے ، ہماری گزشتہ حکومت کے اختتام پریہ شرح 62 فیصدتھی ، اس وقت امریکا میں جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوںکی شرح 110 فیصد، جاپان کی 257 فیصد اوربرطانیہ کے 101 فیصد ہیں کئی ممالک میں یہ شرح110 فیصد سے اوپر ہے مگر رہاں کوئی دانشور یہ راگ نہیں الاپتا، ہم اپنے بدترین دشمن خود ہیں ۔وزیرخزانہ نے تاجروں ، صنعت کاروں اورمعاشی ماہرین پرزوردیا کہ وہ اپنے کاروبار کے علاوہ پاکستان کیلئے بھی وقت دیں۔انہوں نے کہاکہ یہ ملک رہنے کیلئے بناہے، یہ میرا ایمان ہے، ورنہ میں چوتھی مرتبہ وزیرخزانہ نہیں بنتا، ہمیں مل کرکام کرنے کی ضرورت ہے ،ہمیں پاکستان کی خاطرسوچنا چاہئے اور مذموم پراپیگنڈہ کا توڑ کرنا چاہیے ، سیاسی اورذاتی مقاصد اوراہداف کے حصول کیلئے پراپیگنڈہ کرنے والے نام نہاد دانشور لوگوں کوڈرا رہے ہیں جس کی وجہ سے کوئی سونا خرید رہاہے کوئی ڈالر۔ پاکستان مشکلات کے بھنورمیں ہے مگراسے اس بھنورسے نکالنا ہے ، ہمیں سنجیدہ مسائل درپپش ہے ہمیں اس سے نکلنا ہے اورہم نکلیں گے ۔ پیرس کلب میں نہ جانے کا فیصلہ ہم نے کیا تھا اور میں نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ ہمیں پیرس کلب نہیں جانا ہے کیونکہ اگلے سال ہم نے 31 ارب ڈالرکا انتظام کرنا تھا اسلئے یہ فیصلہ کیاگیاہے، پاکستان نے اپنے بین الاقوامی بانڈز کی ادائیگی وقت پرکی کیونکہ یہ ملک کی ساکھ کا معاملہ تھا ،حالیہ دورہ واشنگٹن میں کئی لوگوں نے کہاکہ آپ نے اچھے فیصلے کئے جس کا پاکستان کوطویل المیعاد فائدہ ہوگا۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ ملکی معیشت بالخصوص زراعت اوربرآمدی شعبہ کیلئے حکومت نے خصوصی ترجیحی اقدامات کاآغازکیا ہے۔ حکومت نے توانائی کی ضروریات کو ترجیحات میں شامل رکھا اس میں پہلی ترجیح ہے کہ ضروری درآمدات کو فروغ دیا جائے،سٹیٹ بینک نے اس حوالہ سے اقدامات کئے ہیں، برآمدی صنعت کیلئے خام مال کی فراہمی کے ضمن میں درآمدات کوترجیح دی گئی، زراعت کو بھی درآمدات میں ترجیح دی گئی ہے ، کل رات سٹیٹ بینک نے اس حوالہ سے سرکلربھی جاری کردیا ہے ۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ تاجروں اورصنعت کاروں کی تجاویز کا جائزہ لیاجائیگا اوراس پرحکومت ان پرغورکرے گی ۔وزیرخزانہ نے کہاکہ سٹاک مارکیٹ کی صورتحال میں بہتری آئیگی، انہوں نے کہاکہ 2018 کے الیکشن والے دن انڈکس 19000 پوائنٹس تھی ، ہمارے گزشتہ دورمیں انڈکس 50000 سے اوپر چلا گیاتھا ، ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اس حالت میں کیسے پہنچے ہیں، تاجروں اور سیاستدانوں کوہاتھ میں ہاتھ ڈال کرآگے بڑھنا ہے، میرا دل رورہا ہے کہ پانچ سال پہلے ہم کہاں تھے اورآج کہاں ہے، انشا اللہ پاکستان ترقی کی راہ پرگامزن ہوگا ، تاجر اورصنعت کارمحب وطن پاکستانی ہیں ان کی خدمات کا فائدہ ہوگا، ماضی میں بھی ہواتھا اوراب بھی انشا اللہ ایسا ہوگا۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ بیرونی کھاتے ایک مسئلہ ہے مگرہم صورتحال کا انتظام وانصرام کررہے ہیں ، ہم وسائل مجتمع کررہے ہیں،انشا اللہ مالی سال سال کے آخرمیں ہم بہتر پوزیشن میں ہوں گے، انہوں نے کہاکہ ڈالروں کی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے حکومت نے قانون نافذکرنے والے اداروں کو ہدایات جاری کی ہیں ، بارڈرایریا میں ڈالر لئے جارہے ہیں اورہم نے اس کوروکنا ہے یہ معاشی جنگ ہے اوراس پرقابو پانا ہے، پاکستان کی انٹلی جنس ایجنسیاں اس حوالہ سے کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پالیسی ریٹ زیادہ ہے تاہم اس کا تعین سٹیٹ بینک کرتا ہے جو خودمختارہے۔ ترکیہ میں پالیسی ریٹ اس سے بھی زیادہ ہے، پاکستان میں افراط زرمیں درآمدی افراط زرکا زیادہ کردار ہے ، روپیہ کی قدر میں کمی کابھی نقصان ہواہے مگر ملک کے ساتھ جو تجربے کئے گئے ہیں اس کا وہ یہ موجودہ حکومت زمہ دارنہیں ہے تاہم اسے درست پرگامزن کرنا ہماری ذمہ داری ہے ،ہم ڈراموں کوایک طرف رکھیں گے، کسی کوانتقال کانشانہ نہیں بنائیں گے اورملک کوآگے لیگرجائیں گے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ ہم آئی ایم ایف کا پروگرام پوراکریں گے، ہم نے پہلی بار 2013 میں آئی ایم ایف کا پروگرام پوراکیاتھا، میری کوشش ہے کہ مشکل حالات کے باوجود پاکستان کے ساورن وعدوں کوپوراکیا جائے مگر پاکستان کے عوام کواس کا یرغمال نہیں بنانے دیں گے ، اگر ہم عوام کوفوری طورپر کوئی ریلیف نہیں دے سکتے تو کم سے کم ان پرمزید بوجھ نہ ڈالاجائے،پٹرولیم ڈولپمنٹ لیوی کے حوالہ سے ماضی کی حکومت نے جتنی کمٹمنٹ کی تھی ہم نے اس کو پوراکیا مگر اس کے باوجود عوام کو ریلیف دے رہے ہیں۔
وزیرخزانہ کہاکہ حالیہ بارشوں اورسیلاب نے بھی ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا ، سیلاب سے ہمیں 30 ارب ڈالرکا نقصان ہواہے ،تعمیرنو وبحالی کیلئے ہمیں اگلے 5 یا سالوں میں 16 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی ، اس کیلئے بھی کوششیں کررہے ہیں ، ایک باوقار قوم کی حیثیت سے مشکل صورتحال سے نکلیں گے۔ کوشش ہوگی کی افراط زرکو نیچھے لایا جائے ، حکومت نے مالیاتی خسارہ کو کم کیاہے، چیزیں اچھے انداز میں جارہی ہے، جولوگ ڈیفالٹ کا رونا رو رہے ہیں انہیں مایوسی ہوگی، جاری مالی سال میں تمام واجبات اوربیرونی ذمہ داریاں پوری کریں گے ۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ کیپٹل مارکیٹ میں بہت بڑا سکوپ ہے، یہ بتدریج اوپرجائیگی ، وقت لگیں گا مگرایک ساتھ مل کرملک کومسائل سے نکالیں گے۔2017 میں طے کردہ راستے پرچلتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔ ہمارا پہلا ہدف اندروانی قرضوں کی ضروریات پرہونا چاہیے اس کیلئے سٹاک مارکیٹ کی طرف اور بیرونی قرضوں کیلئے بانڈز مارکیٹ کی طرف جانا ہے، ہمیں اپنے معاشی اشارئے درست کرنا ہوگا اوردنیا کودکھانا ہوگا کہ ہماری معیشت اوپر جارہی ہے ۔جب تک معیشت کے بنیادی اورڈھانچہ جاتی مسائل مسائل حل نہیں ہوگے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ سی پیک پرکام جاری ہے ،اقتصادی زونز میں پیش رفت ہورہی ہے ، زراعت کیلئے پیکج دیا گیا،حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارہ کو کو 8 فیصد سے نیچے لانا ، پرائمری بیلنس کوسرپلس اور سٹاک ایکسچینج کوبہتر بنانا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔

واپس کریں