دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ٹھٹھہ میں پکڑی گئی قیمتی 591 سوہا مچھلیاں 50 کروڑ روپے میں نیلام
No image کراچی(کشیر رپورٹ) پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے ٹھٹھہ میں پکڑی گئی قیمتی 591 سوہا مچھلیاں 50 کروڑ روپے میں نیلام ہو گئی ہیں۔لانچ انچارج جمن لاشاری کے مطابق قیمتی سوہا مچھلی فشریز کراچی میں گزشتہ شب نیلام کی گئی۔ 3 لانچوں کے ماہی گیروں نے پاک بھارت سرحد کے قریب واڑی کریک کے ساحلی علاقے سے گزشتہ روز ان 591 قیمتی سوہا مچھلیوں کو پکڑا تھا۔پاکستان میں سوا سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہے۔ ساحلی علاقے، کھاڑیاں اور کھلا سمندر اس کی آماجگاہ ہے اس مچھلی کی تلاش میں کئی بار کاجھر کریک سے پاکستانی ماہی گیر انڈین نیوی کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں۔کاجھر کریک سر کریک کے قریب واقع ہے جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ سوا کی خوراک میں جانور اور چھوٹی مچھلیاں شامل ہیں۔ یہ غول کے ساتھ رہتی ہے اور کبھی کبھار ان کا پورا غول ہی جال میں آجاتا ہے۔
کروکر نسل کی یہ مچھلی پاکستان کے پانیوں سے بھی معدوم ہو رہی ہے۔ پہلے یہ مچھلی کنارے سے لے کر سو میٹر تک پکڑی جاتی تھی مگر اس بلیڈر کی منہ مانگی قیمت کی وجہ سے اب اس کی آبادی تیزی کے ساتھ ختم ہو رہی ہے۔کسی زمانے میں ماہی گیر کشتیاں بھر بھر کر سوا مچھلی لاتے تھے لیکن اب ان کی تعداد کم ہوگئی ہے اور ہفتے میں ایک دو روز ہی کوئی اس کا شکار کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ چین میں ایک مچھلی پائی جاتی تھی جس کو یلو کروکر کہا جاتا تھا، جو اب وہاں نایاب ہوچکی ہے اور اب جہاں جہاں دنیا میں یہ پائی جاتی ہے، وہاں اس کی بہت زیادہ طلب ہے۔سوا اس یلو کروکر کی مشہابت رکھتی ہے اس کے علاوہ خلیج میسکیکو میں کلیفورنیا میں بھی اس کی مشہابت میں ایک مچھلی ملتی ہے جس کو ٹوٹابا کہتے ہیں اور وہ بھی بے دریغ شکار کی وجہ سے تیزی کے ساتھ معدوم ہو رہی ہے چین میں اس پر پابندی ہے۔سوا کے سبز مائل بلیڈر کو چند بڑی نجی کمپنیاں خریدتی ہیں لیکن اس کو کس طرح ہانگ کانگ یا چین پہنچایا جاتا ہے، یہ کمپنیاں یہ راز نہیں بتاتیں۔ واضح رہے کہ چین اور ہانگ کانگ میں اس بلیڈر کی درآمد پر پابندی ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے معاون محمد معظم کے مطابق سوا کروکر نسل سے تعلق رکھتی ہے، اس کو سندھی میں سوا اور بلوچی میں کر کہا جاتا ہے جبکہ اس کا سائنسی نام ارگائیروسومس جیپونیکس ہے۔اس کا سائز ڈیڑھ میٹر تک ہوسکتا ہے جبکہ وزن 30 سے 40 کلو بھی ہوسکتا ہے، یہ پورا سال ہی پکڑی جاتی ہے لیکن نومبر سے مارچ تک اس کی دستیابی آسان ہوجاتی ہے کیونکہ یہ بریڈنگ سیزن ہے۔ یہ ہانگ کانگ ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔ اس میں ایک قسم کا دھاگہ نکلتا ہے جو آپریشن میں لگائے جانے والے ٹانکے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے مہنگے ہونے کی وجہ اس میں موجود ایئر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے یہ پانی میں اوپر آتی ہے اور نیچے جاتی ہے، یہ بلیڈر تمام ہی مچھلیوں میں ہوتے ہیں لیکن کروکر میں تھوڑے موٹے اور تندرست ہوتے ہیں۔
چینی روایتی کھانوں میں اس مچھلی کے پوٹے کی بڑی اہمیت ہے، اس کے علاوہ یہ شان و شوکت کی بھی عکاسی کرتے ہیں، چینی اس سوکھے پوٹے کو اپنے گھر پر رکھتے ہیں۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو ہم سونا فروخت کردیا جاتا ہے اس طرح چینی بوقت ضرورت اس کو فروخت کرتے ہیں اس کی وجہ سے سوا مچھلی کی قیمت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔چین کی بعض روایتی ادویات میں بھی سوا کے پوٹے کے استعمال کا حوالہ ملتا ہے جس میں جوڑوں کے درد اور جنسی کمزوریاں شامل ہیں۔غیر سرکاری تنظیم گرین پیس ایشیا کے مطابق ہانگ کانگ میں اس بلیڈر کی قیمت 2 لاکھ ہانگ کانگ ڈالر ہے۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق خاص مواقع پر اسے کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات بطور کرنسی بھی اس کا لین دین ہوتا ہے۔ 2008 میں عالمی مالی بحران کے دوران لوگوں نے اس بلیڈر میں سرمایہ کاری کی تھی۔ چین میں بعض مچھلیوں کی اقسام کو خوش قسمتی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے، مچھلیوں کا جوڑا بدھ ازم کی آٹھ علامات میں بھی شامل ہے۔





واپس کریں