دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مذہبی آزادی کی بدترین صورتحال والے ممالک میں ہندوستان کو شامل نہ کرنے پہ خود امریکہ میں شدید تنقید۔ امریکی انتظامیہ انسانی حقوق کو سیاسی مفادات کے لئے ایک '' ٹول '' کے طور پر استعمال کر رہی ہے
No image واشنگٹن (کشیر رپورٹ) امریکہ نے مختلف امور سے متعلق اپنی عالمی رپورٹس اپنے سیاسی مفادات اور اہداف کے حوالے سے تیار اور پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جس سے امریکی اداروں کی عالمی امور کی رپورٹس کے علاوہ خود امریکی انتظامیہ کی ساکھ بھی اعتماد سے محروم ہو رہی ہے۔امریکی کے موجودہ صدر بائیڈن نے انسانی حقوق اورشہری آزادیوں کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد قرار دیا تھا لیکن پھر امریکی اقدامات نے ثابت کیا کہ امریکی انتظامیہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے امور کو بھی اپنے سیاسی مفادات، اہداف کے حوالے سے ایک '' ٹول '' کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ امریکی حکومت کے اس طرز عمل سے امریکہ کی غیر جانبداری ختم ہو کر رہ گئی ہے۔امریکہ نے چین کے خلاف ہندوستان کو استعمال کرنے کی پالیسی اپناتے ہوئے ہندوستان کے تمام گھنائونے اقدامات اور کردار کو نا صرف مکمل طورپر نظر انداز کر دیا ہے بلکہ انسانی حقوق، شہری اور مذہبی آزادیوں کے خلاف ہندوستانی حکومت کے تمام ظالمانہ اور جبر پر مبنی کاروائیوں کی پردہ پوشی کی حکمت عملی بھی نظر آ رہی ہے۔ہندوستان میں اقلیتی مذہبی گروپوں کے خلاف حکومتی سرپرستی میں تشدد اور انہیں معاشی و سماجی طور پر تباہ کرنے کے کاروائیوں کے علاوہ ہندوستانی زیر انتظام جموں وکشمیر میں ہندوستانی حکومت کی نہتے کشمیریوں کے خلاف تشدد،جبر کے علاوہ ہر سرکاری سطح پہ انسانی حقوق کے منافی کاروائیاں ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کے لئے سیاہ داغ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے جمعہ کے روز مذہبی آزادیوں کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں خصوصی تشویش والے ملکوں' کی فہرست میں برما، چین، کیوبا، ایریٹریا، ایران، نکاراگوا، ڈی پی کے آر، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، اور ترکمانستان کو تو شامل ہیں لیکن ہندوستان کو اس میں شامل نہیں کیا جبکہ عالمی اداروں ، تنظیموں کے علاوہ خود امریکہ کی کئی رپورٹس میں ہندوستان میں انسانی حقوق اور شہری و مذہبی آزادیوں کی بدترین صورتحال کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹی بلنکن نے جمعہ کو کہا کہ آج بھی دنیا بھر میں مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر حکومتیں اور غیر سرکاری عناصر لوگوں کو ہراساں کرنے، دھمکیاں دینے، قید کرنے ؛ اور یہاں تک کہ ہلاک کرنے جیسے رویے جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس ضمن میں کچھ ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں سیاسی فائدے کے لیے لوگوں کی مذہبی یا عقیدے کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے مواقع تلاش کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں تقسیم کے بیج بوئے جاتے ہیں، معاشی سلامتی کو نقصان پہنچتا ہے اور اس سے سیاسی استحکام اور امن کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ جب اس طرح کی حرکات جاری ہوں تو امریکہ ان پر خاموش نہیں رہ سکتا۔
امریکہ کے سرکاری نشریاتی ادارے'' وائس آف امریکہ'' نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ''بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت "خاص تشویش والے ملکوں" کی اپنی تازہ نامزدگی میں بھارت یا نائجیریا کو شامل نہیں کیا۔کمیشن کا کہنا ہے کہ محکمہ خارجہ کی جانب سے نائیجیریا یابھارت کو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی کرنے والوں کے طور پر تسلیم کرنے میں ناکامی کا کوئی جواز نہیں ہے، کیونکہ وہ واضح طور پر "خاص تشویش والے ملکوں" کے لیے نامزدگی کے قانونی معیارات پر پورا اترتے ہیں۔کمیشن نے مزید کہا ہے کہ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن کو انتہائی مایوسی ہے کہ وزیر خارجہ نے ہماری سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا اور مذہبی آزادی کی ان خلاف ورزیوں کی شدت کو تسلیم نہیں کیا جو یوایس سی آئی آر ایف اور محکمہ خارجہ دونوں نے ان ملکوں میں دستاویز کی ہیں۔بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن کی چیئرپرسن نوری ترکل نے کہاکہ محکمہ خارجہ کی اپنی رپورٹنگ میں نائیجیریا اوربھارت میں خاص طور پر مذہبی آزادی کی شدید خلاف ورزیوں کی متعدد مثالیں شامل ہیں۔کمیشن کو جو ایک غیر جانبدار اور غیر سرکاری ادارہ ہے اس پر بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس سال افغانستان کو خاص تشویش والے ملک کے طور پر شامل نہیں کیا۔اگرچہ اس نے طالبان کو ایک 'خاص تشویش والے عنصر ' یا ای پی سی کے طور پر دوبارہ نامزد کیا ہے، لیکن یہ اس حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا کہ یہ گروپ ملک کی حقیقی حکومت ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے مذہبی آزادیوں سے متعلق جن ملکوں کو اپنی خصوصی تشویش کی فہرست میں شامل کیا ہے ان میں برما، چین، کیوبا، ایریٹریا، ایران، نکاراگوا، ڈی پی کے آر، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان، اور ترکمانستان شامل ہیں''۔
واپس کریں