دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یوم شہدائے جموں کے موقع پر مظفر آباد میں ریلی اور سیمینار، راجہ فاروق حیدر اور دیگر مقررین کی شرکت اور خطاب
No image مظفرآباد ( کشیر رپورٹ    ) 6 نومبر 1947 کے شہدائے جموں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے دارالحکومت میں پاسبان حریت جموں کشمیر کے زیر اہتمام سیمنار اور ریلی کا انعقاد کیا گیا۔6 نومبر کے عظیم المرتبت شہداء کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش، ریلی میں ''شہدائے جموں کو سلام ہو سلام ہو'' کے فلک شگاف نعرے لگائے گے۔ بھارتی فوجی قبضے سے ریاست کی آزادی تک جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار۔تفصیلات کیمطابق 6 نومبر 1947 جموں کے شہدائے کرام کی یاد میں پاسبان حریت جموں کشمیر کے زیر اہتمام سیمینار اور ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں آزادی پسند رہنماؤں، مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں کے قائدین اور سیئول سوسائٹی کے عمائدین سمیت شہریوں کی بڑی تعدا نے شرکت کی۔ 6 نومبر 1947 جموں کے ان دسیوں ہزار بے بس اور مظلوم شہداء جن کو ڈوگرہ سپاہیوں، سکھ جتھوں، ہندو انتہاء پسند تنظیموں بجرنگ دل، اکالی دل،  راشٹریہ سیوک سنگھ کے دہشت گردوں نے بے دردری سے شہید کردیا تھا خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

سیمنار سے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدرخان، چیئرمین پاسبان حریت جموں کشمیر عزیر احمد غزالی، آزادی پسند راہنماؤں مشتاق السلام، عثمان علی ہاشم، ڈاکٹر محمد منظور، سیاسی راہنماؤں شوکت جاوید میر، جاوید احمد مغل، مہاجرین راہنماؤں بلال احمد فاروقی، محمد اسلم انقلابی، چوہدری محمد مشتاق، راجہ سجید خان، محمد صادق بٹ، چوہدری نظیراحمدثانی، راجہ گلزرین، پرویز درانی، لیاقت علی رانا اور تنویراحمد درانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 6 نومبر 1947 کو ڈوگرہ سپاہیوں، ہندوستانی فوجیوں اور آر ایس ایس کے انتہا پسندوں نے جموں میں دسیوں ہزار مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام کرکے اپنی وحشت اور دہشتگردی کا بدترین مظاہرہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جموں کے شہریوں کا اجتماعی قتل عام انسانی تاریخ کا بدترین اقدام تھا۔ جس میں اڑھائی لاکھ کے قریب نہتے مسلمانوں کو قتل کیا گیا ہزاروں بچوں اور خواتین کو اغواء کیا گیا۔ لاکھوں مسلم خاندانوں کو اپنی ریاست، شہر گھر بار جبری طور پر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ 6 نومبر 1947 کا جموں میں قتل عام  انسانی قدروں پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔  جموں کے مسلمانوں کے دردناک اجتماعی قتل عام کا مقصد ریاست جموں کشمیر کی مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا تھا۔ آج پچھتر برس گزرنے کے باوجود بھی 6 نومبر جموں کا قتل عام ہندوتوا دہشت گرد تنظیموں کے مجرمانہ چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کررہا ہے۔ 1947 سے آج تک بھارتی حکمران جموں کشمیر کے عوام کو کچلنے، مٹانے اور تباہ کرنے کی سازشوں پر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔

2014 کے بعد نریندرہ مودی اور اس کے گروہ نے ریاست کے اندر بدترین قانونی جارحیت کرکے ریاست کے مسلمانوں کے سیاسی اور بنیادی انسانی حقوق بری طرح پامال کیئے ہیں۔ مقررین نے اقوامِ متحدہ، عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو جموں کے قتل عام اور 1989 کے بعد سوا لاکھ شہریوں کے قتل پر بھارتی حکمرانوں، دہشتگرد تنظیموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا طالبہ کیا۔ مقررین نے جموں کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان عظیم قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 6 نومبر جموں کے مسلمانوں کی طرف سے دی گئی عظیم المرتبت قربانیاں کشمیر کی جاری تحریک آزادی کا ایک سنہرا باب ہیں۔ 1947 جموں کے مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام کے داغ کشمیریوں کی یادوں میں آج بھی تازہ ہیں۔

سیمنار سے خطاب میں مقررین کا مزید کہنا تھا کہ آزادی اور قومی وحدت کیلئے1947 میں جموں سے شروع ہونے والا قربانیوں کا سلسلہ آج بھی مقبوضہ ریاست میں جاری ہے۔ پچھلے 75 سالوں میں مقبوضہ ریاست جموں کشمیر میں 500,000 سے زیادہ کشمیری شہری بھارتی دہشت گردی کا شکار بن چکیہیں۔ 1947 جموں کے مسلمانوں کی بے مثال قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی،  آج بھی بھارتی جنتا پارٹی اور راسشٹری سیوک سنگھ کی حمایت یافتہ ہندوتوا طاقتیں کشمیر میں 1947 کے جموں کے قتل عام کو دہرانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف مظالم کی بنیادی وجہ کشمیریوں کا بھارت سے آزادی اور حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنا ہے۔ مقررین نے کہا کشمیری عوام جرات اور بہادری کے ساتھ بھارتی قبضے سے آزادی کیلئے مزاحمت جاری رکھنے کا عزم کر چکے ہیں۔ جسے وہ کامیابی تک جاری رکھیں گے۔ مقررین نے دنیا کو مقبوضہ ریاست میں کشمیریوں کے بے رحمانہ قتل عام کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاسبان حریت جموں کشمیر کے زیر اہتمام سیمنار کے شرکاء نے شہدائے جموں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اولڈ سیکرٹریٹ سے برہان وانی شہید چوک تک ریلی بھی نکالی۔

واپس کریں