دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تارکین وطن کے خلاف یورپی ممالک کی ظالمانہ پالیسیاں، دو سال میں 5ہزار اور سات سال میں29ہزار ہلاکتیں ریکارڈ ، ہلاک شدگان کی اصل تعداد بہت زیادہ ہے،اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ جاری
No image جنیوا(کشیر رپورٹ) یورپی ملکوں کی پناہ گزینوں کے بارے میں سخت پالیسیوں کی وجہ سے گزشتہ دو سال کے دوران یورپ ہجرت کی کوشش میں پانچ ہزار سے زائد تارکین وطن ہلاک ہو ئے ہیں جبکہ گزشتہ سات سال میں یورپ جانے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی تعداد 29ہزار سے زیادہ ہے۔اقوام متحدہ کی ایجنسی کے لاپتہ تارکین وطن کے پروجیکٹ '' انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن'' نے منگل کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا کہ بحیرہ روم اورزمینی راستوں سے یورپ داخلے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی ہلاکتوں میں اضافہ بہت تشویش ناک ہے ۔ جنوری 2021 سے اب تک 2,836 تارکین وطن اور مہاجرین لیبیا اور تیونس سے گزر کر اٹلی یا مالٹا پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں۔دوسرا مہلک ترین بحر اوقیانوس کا راستہ ہے جو مغربی افریقہ سے اسپین کے کینری جزائر تک ہے، جہاں 2021 سے اب تک 1500 سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ تارکین وطن کی ہلاکتوں کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جو کسی ریکارڈ میں نہیں آ سکے۔ایسی بے شمار کشتیاں ہیں جو سمندر میں بغیر کسی گواہی کے غائب ہو جاتی ہیں ۔ یورپ کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ یونان، مغربی بلقان اور انگلش چینل میں بھی اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھی گئی۔
'آئی او ایم 'کے مسنگ مائیگرنٹس پروجیکٹ نے ایک بیان میں کہا کہ بہت سی اموات کو "مصیبت میں مبتلا تارکین وطن کی فوری اور موثر مدد سے روکا جا سکتا تھا۔بیان میں کہا گیا کہ اس رپورٹ میںیورپی حکام کی طرف سے نام نہاد پش بیکس، یا جبری بے دخلی سے متعلق اموات کے اعدادوشمار جاری کیے ہیں۔ اس میں زندہ بچ جانے والوں کی رپورٹوں کی بنیاد پر 252 اموات ہوئیں۔پش بیکس بین الاقوامی اور یورپی یونین دونوں قانون کے مطابق غیر قانونی ہیں کیونکہ وہ سیاسی پناہ حاصل کرنے کے حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ایک اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں جو کسی کو بھی ایسی جگہ پر واپس جانے سے روکتا ہے جہاں انہیں ایذا رسانی، اذیت یا جان کے خطرے کا حقیقی خطرہ درپیش ہو۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پش بیک سے متعلقہ اموات میں سے 97 وسطی بحیرہ روم میں، 70 مشرقی بحیرہ روم میں، 58 ترکی-یونان کی زمینی سرحد پر، 23 مغربی بحیرہ روم میں اور 4 بیلاروس-پولینڈ کی سرحد پر ہوئیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "شفافیت کی کمی، رسائی کی کمی، اور اس طرح کے واقعات کی انتہائی سیاسی نوعیت کی وجہ سے اس طرح کے کیسز کی مکمل تصدیق کرنا تقریبا ناممکن ہے، اور اس طرح یہ اعداد و شمار ممکنہ طور پر اموات کی حقیقی تعداد کا کم اندازہ لگا سکتے ہیں۔

واپس کریں