دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پابندیوں سے پاک روس تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، پاکستان روس سے ایل این جی لینا چاہتا ہے، پاکستان کے سفیر شفقت علی خان کا ' تاس' کو انٹرویو
No image ماسکو( کشیر رپورٹ) روس میں متعین پاکستان کے سفیر شفقت علی خان نے کہا ہے کہ روس اور پاکستان مغربی پابندیوں کے باوجود دو طرفہ تجارت کو فروغ دے رہے ہیں،روس کے ساتھ گیس پائپ لائین پہ کام جاری ہے۔روس میں پاکستان سفیر نے روس کی سرکار نیوز ایجنسی ' تاس' کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا۔ انٹرویو کے دوران پاکستانی سفیر نے پاکستان کو روسی گیس اور گندم کی فراہمی کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیئے۔
سوال: پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے پر مذاکرات کیسے ہو رہے ہیں؟ کیا اس میں کوئی رکاوٹیں حائل ہیں؟
جواب : یہ ایک بہت اہم سوال ہے، اس طرح کے اسٹریٹجک منصوبوں کی کئی امور ہوتے ہیں جبکہ سیاسی سطح بھی ایک درجہ ہے۔ ہم اس منصوبے کو سٹریٹیجک سمجھتے ہیں، اسلام آباد اور ماسکو کی سیاسی آمادگی کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ دونوں فریق ہی اس منصوبے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ جو مسائل ہم اب حل کر رہے ہیں وہ مختلف سطح پر ہیں اس طریقہ کار میں قانونی اور مالیاتی مسائل ہیں جو سنگین نہیں ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے پر کام جاری ہے اور حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور روسی صدر ولادی میر پوتن کے درمیان سمرقند میں ایس سی او سربراہی اجلاس کے موقع پر ایک بہترین ملاقات ہوئی، جہاں دونوں ممالک کے رہنماں نے اس منصوبے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
سوال: کیا مغربی پابندیاں روس پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر اثر انداز ہورہی ہیں؟
جواب: آپ دیکھ رہے ہیں مغربی پابندیاں ہر چیز کو متاثر کرتی ہیں مالی لین دین، نقل و حمل، انشورنس اور بہت سے دوسرے عوامل ان پابندیوں کی زد میں ہیں۔ میرے پاس اس حوالے سے تفصیلات نہیں ہیں کہ مغربی پابندیاں اس خاص منصوبے پر کیسے اثر انداز ہورہی ہیں، لیکن وسیع تناظر میں ہمارا مالیاتی نظام ایک نئے ماحول میں روسی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعامل قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہم پابندیوں کو روکنے کی کوشش کریں گے جہاں وہ مسائل پیدا کریں گی، لیکن پابندیاں ہمارے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکیں گی، خواہ مخصوص منصوبوں کے حوالے سے ہوں یا سیاسی یا اقتصادی تعلقات میں یہ پابندیاں حائل نہیں ہوسکتیں. ہم ایسے مشکل حالات میں کام کرنے کی کوشش کریں گے یہ وہ حقیقت ہے جس کے ساتھ ہم کام کرنے پر مجبور ہیں۔
سوال: رشین انرجی ویک سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے اس امید کا اظہار کیا کہ جلد ہی ہم پاکستان سٹریم منصوبے کے بارے میں اچھی خبریں سنیں گے۔
جواب۔اگلے سال کے آغاز میں 18 جنوری کو ہم بین الحکومتی کمیشن کا اگلا اجلاس اسلام آباد میں منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ دونوں وزرا مزید تفصیل سے بات چیت کر سکیں گے کیونکہ بعض اوقات جب تکنیکی ماہرین کے ذریعے مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا تو اعلی سطح پر مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان مسائل کو بین الحکومتی کمیشن میں حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
سوال: گیس پائپ لائن کی تعمیر کب شروع ہوسکتی ہے؟
جواب: میں اس بارے حتمی نہیں بتا سکتا، ایک سفیر کے طور پر میں فریقین کے درمیان بات چیت کے عمل کو آسان بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔
سوال: کیا آپ اگلے سال اس منصوبے کے آغاز کی توقع کرتے ہیں؟
جواب: مجھے امید ہے لیکن بین الحکومتی کمیشن اس کی تاریخ طے کرے گا۔
سوال: روس پاکستان بین الحکومتی کمیشن میں مزید کون سے موضوعات پر بات کی جائے گی؟
جواب: یہ بین الحکومتی کمیشن کا آٹھواں اجلاس ہوگا، یہ بہت اچھا پلیٹ فارم ہے جہاں تجارت کے پورے کمپلیکس سمیت سرمایہ کاری کے تمام مسائل پر غورکیا جاتا ہے- بین الحکومتی کمیشن میں یقینا سب سے اہم موضوع پاکستان روس توانائی تعاون ہوگا. جس فریم ورک کے اندر پاکستان سٹریم پراجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے۔
اگلے سال ایک بین الحکومتی کمیشن پابندیوں سے متعلق نئے چیلنجوں پر بات کرے گا۔ مثال کے طور پر پاک روس بینکوں کے درمیان روابط کیونکہ ہمیں اس تناظر میں مسائل کا سامنا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ سیاسی سطح پر وزرا ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں یا دو طرفہ اقتصادی تعلقات کے لیے نئے زاویئے قائم کر سکتے ہیں۔
سوال: روس اور پاکستان نئے حالات میں کس طرح تجارت کا ارادہ رکھتے ہیں؟
جواب : یہ بحث کے موضوعات میں سے ایک ہے۔ بینکنگ شعبے سے متعلق بہت سے پیچیدہ مسائل ہیں۔ روس کے پاس زیادہ تجربہ ہے اور ہم نے دیکھا کہ روس دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی مسائل سے کیسے نمٹتا ہے۔ روس کے برعکس پاکستان کو قومی کرنسیوں میں ادائیگیاں کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور ہم یہ روس سے سیکھنا چاہیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ بین الحکومتی کمیشن میں ان مسائل پر غور کیا جائے گا اور متعلقہ محکموں کو ہدایات دی جائیں گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان زیادہ تر تجارت ڈالر یا یورو میں طے کرتا ہے اور ہمیں بارٹر ٹریڈ کا کچھ تجربہ ہے۔ لہذا، ہمارے پاس ایران کے ساتھ سرحدی تجارت کی ایک خاصی مقدار ہے۔ لیکن ہمارے پاس یہ تجربہ نہیں ہے کہ اگر ہم روپے اور روبل میں تجارت کرتے ہیں تو کرنسی کے اتار چڑھا تبدیلی سے متعلق مسائل کو کیسے حل کیا جائے۔ اس لیے ہم اسے سیکھنا چاہتے ہیں۔
سوال: کیا یوآن میں تجارت کے امکان پر بات ہو رہی ہے؟
جواب: ہم اس پر بھی بات کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی ارادہ ایک چیز ہے لیکن اس کے ادراک کے لیے تجربہ اور وقت درکار ہوتا ہے۔ دو طرفہ تجارت ہمارے لیے انتہائی اہم ہے۔ کسی خاص ملک کے ساتھ تجارت میں کمی کا روس پر اتنا مضبوط اثر نہیں پڑسکتا، لیکن ہمارے لیے یہ بہت اہم ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ روس کے ساتھ ہماری تجارت کو نقصان پہنچے۔
سوال: دوسرے ممالک کے ساتھ روس کے اقتصادی تعلقات کے لیے ایک اہم مسئلہ میر ادائیگی کے نظام کا استعمال ہے۔ کیا پاکستان کے ساتھ اس معاملے پر بات ہو رہی ہے؟
جواب: ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن یہ مسئلہ کرنسی کی تبدیلی اور تجارت سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے بعد حل ہوگا۔ ویسے ایک اہم بات جو میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلی بار افغانستان کی سرزمین کے زریعے جو تجارت کی گئی اس کا حجم ریکارڈ سے زیادہ ہوا. چونکہ سامان کی نقل و حمل زیادہ مشکل ہوگئی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے پاکستانی سپلائرز اب اپنا سامان افغانستان کے راستے ٹرک کے ذریعے سامان بھیجتے ہیں، افغانستان کے بعد پھر ٹرک وسطی ایشیا میں داخل ہوتے ہیں. یوریشین اکنامک یونین میں کسٹم کلیئرنس کے ذریعے جاتے ہیں، مثال کے طور پر قازقستان یا کرغزستان، اور پھر ماسکو پہنچتے ہیں اور اس سارے عمل میں 25 سے 35 دن لگتے ہیں۔
یہ طریقہ کار کامیابی سے کام کر رہا ہے، اور روس سے کچھ کارگو بھی اس راستے سے پاکستان بھیجا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ہم ایرانی سرزمین کو راہداری کے لیے کس طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ پاکستان سے کارگو ایران پہنچے گا پھر بحیرہ کیسپین کے راستے آذربائیجان جائے گا اور وہاں سے ہی روس کی سرزمین میں داخل ہوگا۔ اس طرح چیلنجز بھی مواقع پیدا کرتے ہیں اور مجھے ابھی پتہ چلا ہے کہ کچھ معاملات میں تجارت، تھوڑی مقدار میں چین سے بھی ہوتی ہے۔ خراب نہ ہونے والی اشیا کو چینی بندرگاہوں اور پھر وہاں سے ماسکو بھیجا گیا۔
سوال: کیا بین الحکومتی کمیشن میں کسی معاہدے پر دستخط ہوں گے؟
جواب: اس کے بارے میں بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے، لیکن بہت سے معاملات پر بات ہو رہی ہے۔
سوال: جیسا کہ آپ نے پہلے بتایا روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران روسی رہنما نے سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کے لیے مزید مدد کی پیشکش کی۔ بعد ازاں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ روس کی جانب سے پاکستان کو گندم کی پیشکش کی گئی تھی جس سے خوراک کی کمی کا خطرہ ختم ہونے کا امکان تھا۔ اس سلسلے میں کیا ابھی تک کوئی معاہدہ ہوا ہے؟
جواب: تکنیکی ماہرین پہلے ہی اس پر بات کر رہے ہیں۔ ہم روس سے گندم خریدنا چاہتے ہیں۔ 2021 میں ہم نے روس سے بہت زیادہ گندم بھی خریدی جب ہم نے وزارت زراعت کے درمیان ایک جامع معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت تکنیکی ماہرین تفصیلات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات اچھے طریقے سے جاری ہیں۔ عام طور پر پاکستان خوراک میں خود کفیل ہوتا ہے لیکن بعض اوقات گندم کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روس ہمارے لیے ایک نیا سپلائر بن گیا ہے اس سے پہلے دوسرے ممالک تھے۔ ہم روس کو طویل مدتی مستحکم خوراک کی فراہمی کے شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم روس کی جانب سے حالیہ سیلاب کے دوران پاکستان کے لیے انسانی بنیادوں پر بھیجی جانے والی امداد کے شکر گزار ہیں۔ ماضی میں جب ہم نے 2005 میں زلزلہ یا 2010 میں سیلاب جیسی بڑی قدرتی آفات کا سامنا کیا تو روس نے تب بھی ہماری مدد کی اور یہ بات ہمیں اب بھی یاد ہے۔
سوال: مستقبل قریب میں اور کون سی اعلی سطحی ملاقاتوں کا منصوبہ ہے؟
جواب: ہم فی الحال دو یا تین امکانات پر بات کر رہے ہیں جب ان کی تصدیق ہو جائے گی تو ہم آپ کو ان کے بارے میں بتائیں گے۔
سوال: سنا ہے پاکستان کے وزیر خارجہ کا دورہ روس کا ارادہ ہے؟
جواب: ہمیں دعوت نامہ موصول ہوا، ہم اس پر کام کر رہے ہیں لیکن دوسرے دوروں کا پروگرام ہے۔
سوال: رشین انرجی ویک میں خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ پاکستان نے ایل این جی کی فراہمی کے لیے ٹینڈر کا اعلان کیا، لیکن ایک بھی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ کیا اسلام آباد روس سے ایل این جی خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس کے کیا امکانات ہیں؟
جواب: پاکستان ایک مثال ہے کہ توانائی کی منڈی میں عدم استحکام ترقی پذیر ممالک کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔ طے شدہ قیمت پر ایل این جی کی فراہمی کے لیے ہمارا ایک کمپنی کے ساتھ طویل مدتی معاہدہ تھا۔ قیمتیں بڑھ گئیں اور انہوں نے یہ گیس یورپی ملک کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ہمیں جرمانہ ادا کیا لیکن جرمانہ ادا کرنے کے باوجود منافع کمایا۔ تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم نے کتنا نقصان اٹھایا ہے۔ ہماری توانائی کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ایل این جی کی مستحکم خریداری پر مبنی ہے۔ ہم نے روس کے ساتھ رابطے قائم کیے ہیں اور یقینا ہم ایل این جی کی سپلائی میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ جو منصوبہ صورتحال کو یکسر بدل دے گا وہ روس سے پائپ لائن کے ذریعے گیس کی سپلائی ہوگی لیکن یہ بعد میں آئے گی۔ ہماری فوری ضروریات کا تعلق ایل این جی سے ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو دیکھیں۔ امیر ممالک ساری ایل این جی لے لیں تو ہمارا کیا بنے گا؟ عالمی گیس مارکیٹ کو مستحکم کرنا ہوگا۔ آپ جانتے ہیں کہ پابندیوں کا ہم پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔
سوال: اب تک روس کے ساتھ ایل این جی کی فراہمی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا؟
جواب: نہیں ہم نے ابھی اس معاملے پر رابطے قائم کیے ہیں۔
سوال: جیسا کہ آپ جانتے ہیں، روس اور ایران جلد ہی گیس کی سپلائی کے تبادلے پر متفق ہو سکتے ہیں۔ کیا پاکستان روس سے ایران کے راستے گیس خرید سکتا ہے؟
جواب: میں اس کا ماہر نہیں ہوں، لیکن ہم ایسے کسی بھی امکان پرغور کرنے کے لیے تیار ہیں۔










واپس کریں