دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
امریکی سفیر کا دورہ آزاد کشمیر، امریکہ کو تشویش سے آگا ہ کیا ہے، ہندوستانی ترجمان۔ دنیا کو کشمیر کی صورتحال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت، DWسے سینئر کشمیری صحافی کی گفتگو
No image نئی دہلی (کشیر رپورٹ) ہندوستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کے سفیر کے دورہ آزاد کشمیر پر اپنے اعتراض سے امریکہ کو آگاہ کیا گیا ہے۔ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے جمعہ کو معمول کی بریفنگ میں امریکہ کے پاکستان میں معین سفیر کے آزاد کشمیر کے دورے اور اس خطے کو آزاد کشمیر کے نام سے مخاطب کرنے کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہندوستان نے اسلام آباد میں امریکی سفیر کے دورہ آزاد کشمیر پر اپنے اعتراضات سے آگا ہ کیا ہے ، ہندوستان نے پاکستان میں امریکی سفیر کی آزاد کشمیر میں کچھ ملاقاتوں پر بھی اعتراض کیا۔ ترجمان ارندم باغچی نے صحافیوں کو بتایا، ہم نے امریکہ کے اس دورے پر اپنے اعتراضات سے آگاہ کر دیا ہے۔ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے آزاد کشمیر کے لئے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کا لفظ استعمال کیا۔
جرمن نشریاتی ادارے''ڈائوچ آف ویلے''DWنے اس بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ
'' اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اپنے حالیہ دورے کے دوران کئی بار 'آزاد کشمیر' کا لفظ استعمال کیا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اس نے امریکہ کو اپنے اعتراضات سے آگاہ کر دیا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ نے جمعے کے روز اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران اسلام آباد میں امریکی سفیر کے پاکستان کے زیر انتظام خطہ کشمیر کے دورے پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ اس حوالے سے بھارتی موقف سے امریکہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی سے جب اس بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، "پاکستان میں امریکی سفیر کے پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے دورے اور ان کی ملاقاتوں پر ہمارے اعتراضات سے متعلق امریکی فریق کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔" بھارت "آزاد کشمیر" کے نام کے اس خطے میں کسی بھی بیرونی افراد کے سفر پر سخت رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔ اپریل میں جب امریکی کانگریس کی خاتون رکن الہان عمر نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا تھا، تو اس وقت بھی بھارت نے شدید رد عمل ظاہر کیا تھا۔ڈی ڈبلیو اردو نے جب ایک سینیئر کشمیری صحافی سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ دنیا کو کشمیر کی صورتحال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا، "خاص طور پر بھارتی کشمیر میں، جہاں تقریبا ایک کروڑ کشمیری مسلمانجبرو ظلم پر مبنی غلامی کی گھٹن کی شکار ہیں۔"انہوں نے مزید کہا، "ہم کر بھی کیا سکتے ہیں، گزشتہ تین برسوں سے ہم پو جو گزر رہی ہے، کیا دنیا اس سے واقف نہیں ہے، تاہم خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اگر کشمیریوں کو بھی انسان سمجھتے ہیں، تو پوری دنیا کو کشمیر پر بات کرنی چاہیے تاکہ ان کی بے چینی، گھٹن اور اتنی بڑے فوجی تسلط سے کچھ تو راحت مل سکے۔"خطہ جموں و کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور دونوں ہی اس پر اپنا اپنا دعوی کرتے رہے ہیں، جبکہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک بڑا حلقہ اپنی آزادی کا مطالبہ کرتا رہا ہے، جہاں بھارتی حکومت نے سخت ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔اسی لیے امریکی سفیر کے اس بیان کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے کئی حلقوں میں کافی بحث ہوتی رہی ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ کون کہاں پر کھڑا ہے۔''

واپس کریں