دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
امریکی عسکری امداد کی بندش کی وجوہات: انڈیا سے جنگ، جوہری پروگرام اور اب دہشت گردوں کی پشت پناہی
امریکہ اور پاکستان کے 70 سالہ تعلقات میں جب بھی زیادہ کشیدگی آتی ہے تو اس میں پہلی تلوار پاکستان کو ملنے والی عسکری امداد پر چلتی ہے۔

موجودہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پہلی بار پاکستان کی عسکری امداد نہیں روکی گئی بلکہ ماضی میں ایسا متعدد بار ہو چکا ہے جب امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد بند کیا۔

پاکستان کو پہلی بار 1955 میں عسکری مد میں امریکی امداد ملنا شروع ہوئی جس میں اضافہ ملک کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دور میں ہوا تاہم 1965 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بعد امریکہ امداد میں بڑی کٹوتیاں شروع کر دی تھیں۔
ہلے دور میں 1956 میں 1086 ملین ڈالر کی امداد کم ہوتے ہوئے 1969 تک صرف پچاس لاکھ ڈالر رہ گئی۔ اسی عرصے میں پاکستان میں سیاسی انتشار کا ماحول تھا اور 1971 میں انڈیا سے جنگ کے بعد مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تاہم بظاہر خطے میں امریکی مفادات نہ ہونے کے نتیجے میں امداد 1979 تک پاکستان کو محدود یا یہ کہا جائے کہ برائے نام ہی فوجی امداد ملتی رہی۔

دس برس پر محیط اس عرصے میں ایک برس میں زیادہ سے زیادہ امریکی امداد 12 لاکھ ڈالر اور کم سے کم چار لاکھ 20 ہزار ڈالر تک رہی لیکن 1979ء میں ہی پاکستان میں جوہری پلانٹ کی موجودگی کے انکشاف کو جواز بناکر امریکی صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ نے خوراک کے سوا پاکستان کی تمام امداد روک دی اور 1955 کے بعد پہلی پاکستان کو دو برسوں تک امداد کی مد میں ایک ڈالر بھی نہیں ملا بلکہ اقتصادی شعبے میں بھی ایک دھیلا نہیں دیا گیا۔

اسی عرصے میں افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد امریکہ کے خطے میں دوبارہ دلچسپی پیدا ہوئی اور اس کے ساتھ پاکستان کے ساتھ سرد تعلقات میں گرمجوشی بھی پیدا ہونا شروع ہو گئی اگرچہ اس وقت ملک میں فوجی آمر جنرل ضیا الحق منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرنے اور پھانسی دینے کے بعد حکمرانی کر رہے تھے۔

1982 میں شروع ہونے والے دوسرے دور میں پاکستان کو امریکی امداد کی بحالی 12 لاکھ ڈالر سے ہوئی اور اگلے ہی برس میں یہ رقم غیر معمولی اضافے سے تقریباً 50 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔

پاکستان کی افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہادی کارروائیوں میں مدد پر امریکی امداد کے دورازے کھلے رہے جو 1990 تک مجموعی طور پر تین ارب 80 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی جس میں پاکستان نے کوبرا جنگی ہیلی کاپٹروں اور ایف 16 جنگی طیاروں جیسے امریکی ساختہ اسلحے کی خریداری سے اپنے سامانِ حرب کو جدید بنایا جیسا کہ اس نے پہلے دور میں ہونے والی امریکی عسکری امداد کو استعمال کر کے کیا تھا۔

سوویت یونین کے ٹوٹنے اور افغانستان سے روسی فوج کے انخلا کے بعد امریکی مفادات خطے میں ایک بار پھر محدود ہو گئے اور اسی عرصے میں جہاں افغان جنگ میں امریکی کے اہم اتحادی جنرل ضیا طیارے کے حادثے میں مارے گئے وہیں امریکہ کو پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں ایک بار پھر سے تشویش ہوئی۔

امریکہ نے ریپبلکن پارٹی کے ایک سینیٹر کے نام سے منسوب پریسلر ترمیم امریکی صدر کو پابند کیا تھا کہ وہ ہر سال امداد دینے سے پہلے اس بات کی تصدیق کریں گے کہ پاکستان جوہری ہتھیار تیار نہیں کر رہا۔

پاکستان کے جوہری منصوبے کے بارے میں پائی جانے والی تشویش کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس نے امریکہ کے غیرملکی قانون میں ایک ترمیم کی منظوری دے دی جسے پریسلر ترمیم کا نام دیا گیا۔

1990 میں امریکی صدر نے تصدیق کی تو پاکستان کو فوجی امداد کی مد میں 283.44 ملین ڈالر ملے لیکن 1991 میں تصدیق نہ ہونے کے بعد یہ امداد دوبارہ صفر پر آ گئی۔

اس کے بعد 2001 تک صرف دو برس ہی ایسے رہے جن میں امداد ملی۔ 1992 میں 72 لاکھ ڈالر اور 1999 میں 22 لاکھ ڈالر ملنے کے علاوہ باقی ماندہ برسوں میں عسکری امداد کے خانے میں صفر کا ہندسہ ہی رہا جبکہ پانچ برس تو اقتصادی امداد بھی نہیں ملی۔

عسکری امداد بند ہوئی تو جدید امریکی سازو سامان کی ترسیل بھی متاثر ہوئی جس میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایف 16 جہازوں کی فراہمی پر بھی تنازع پیدا ہوا۔ پاکستان پر پابندیوں سے پہلے وہ امریکہ کو جہازوں کی خریداری کے لیے رقم ادا کر چکا تھا تاہم امریکہ نے جہاز فراہم تو نہیں کیے لیکن اس کے بدلے گندم دینے کی پیشکش کرتا رہا۔
واپس کریں