دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سویڈش سائینسدان سوانتے پابو نے انسانی ارتقاء کے اہم رازوں سے پردہ اٹھانے پر میڈیکل کے شعبے میں نوبل انعام جیت لیا
No image برلن( مانیٹرنگ رپورٹ) سویڈن کے سائنس دان سوانتے پابو نے انسانی ارتقاء کے حوالے سے اہم دریافت کرنے پر طب کے شعبے میں 2022 کا نوبل انعام جیت لیا ہے۔ سوانتے پابو نے نیندر تھل کے ' ڈی این اے' پر تحقیق سے انسانی ارتقاء کے اہم رازوں سے پردہ اٹھایا،جس سے انسانی مدافعتی نظام کو سمجھنے میں کلیدی مدد حاصل ہوئی۔تقریبا8لاکھ سال پہلے انسان نیندر تھل سے الگ مخلوق کے طور پر سامنے آیا ۔ سوانتے پابو کی تحقیق سے انسانی انواع کے درمیان روابط اور ترویج کو پوری طرح سمجھنے میں اہم مدد حاصل ہوئی۔ جس پہ انہیں میڈیکل کے شعبے میں نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔
سویڈش سائینسدان سوانتے پابو اور ان کی ٹیم نے سائبیریا کے ایک غار میں پائی جانے والی انگلی کی چھوٹی ہڈی سے ڈی این اے نکالنے میں کامیاب ہو گئی، جس کے نتیجے میں قدیم انسانوں کی ایک نئی نسل کو پہچانا گیا جسے وہ ڈینیسووان کہتے ہیں۔ یہ ایک اہم دریافت تھی اور اس سے معلوم ہوا کہ نیندر تھل اور ڈینیسووان ملتے جلتے دو گروپ تھے۔نیندر تھل کبھی افریقہ میں نہیں تھے ، اس لئے افریقہ سے باہر کے لوگوںمیں نینڈرتھل جینز کا 1-2% ہوتا ہے۔ ڈینیسووان جینز ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں 6 فیصد تک جدید انسانوں میں پائے گئے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہاں بھی نسلی ملاپ ہوا ۔
"افریقہ سے ہجرت کرنے کے بعد ان کے ساتھ گھل مل کر، ہومو سیپینز نے ایسے سلسلے کو اٹھایا جس سے ان کے نئے ماحول میں زندہ رہنے کے امکانات بڑھ گئے۔مثال کے طور پر، تبتی ڈینیسووان کے ساتھ ایک جین کا اشتراک کرتے ہیں جو انہیں اونچائی کے مطابق ڈھالنے میں مدد کرتا ہے۔سوانتے پابو نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر نینڈرتھلز مزید 40,000 سال زندہ رہتے تو کیا ہوتا۔
67سالہ سوانتے پابو ن نے یونیورسٹی آف میونخ اور میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد سن برگسٹروم نے 1982 میں طب کا نوبل انعام جیتا تھا، ایسا آٹھویں بار ہوا ہے کہ جب نوبل انعام جیتنے والے کے بیٹے یا بیٹی نے نوبل انعام جیتا ہو۔ سوانتے پابو ن نے اپنی کتاب ''نیندر تھل مین'' میں لکھا کہ وہ جینومس کی تلاش میں خود کو برگسٹروم کا "خفیہ غیر ازدواجی بیٹا" قرار دیتے ہیں۔
واپس کریں