دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے انسانیت سوز مظالم اقوام عالم کے سامنے اٹھانے پر ہندوستان بوکھلاہٹ کا شکار، ہندوستانی مندوب کا جوابی بیان
No image نیو یارک(کشیر رپورٹ) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی طرف سے مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے انسانیت سوز مظالم اور جبر کی صورتحال دنیا کے سامنے اٹھانے پر ہندوستان بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کے خطاب کے بعد اقوام متحدہ میں ہندوستانی مشن کے فرسٹ سیکریٹری میجیتو وینیتو نے ہندوستان کے طرف سے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
یہ افسوسناک بات ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے بھارت کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے کے لیے اس باوقار اسمبلی کے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے ایسا اپنے ملک میں غلط کاموں کو چھپانے اور بھارت کے خلاف ایسے اقدامات کا جواز پیش کرنے کے لیے کیا ہے، جسے دنیا ناقابل قبول سمجھتی ہے۔ہندوستانی مندوب نے کہا کہ ایک ایسی ریاست جو یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کی خواہاں ہے، وہ کبھی بھی سرحد پار سے دہشت گردی کی سرپرستی نہیں کرے گی اور نہ ہی وہ ممبئی کے ہولناک دہشت گردانہ حملے کے منصوبہ سازوں کو پناہ دے گی، تاہم وہ محض بین الاقوامی برادری کے دبا کے تحت ایسا نہ کرنے کی باتیں کہتی ہے۔وینیتو نے اس موقع پر بھارت کے اس موقف کی تکرار کی کہ ہندوستان دہشت گردی، دشمنی اور تشدد سے پاک ماحول میں پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات کا خواہاں ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ جموں و کشمیر اس کا اٹوٹ حصہ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔کشمیر کے حوالے سے اس نے ایک بار پھر سے اپنی اسی موقف کا اعادہ کیا۔
ہندوستانی مندوب نے پاکستان کے ساتھ مزاکرات کے لئے پیشگی شرائط عائید کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر پاک و ہند میں امن و سلامتی اور ترقی کی خواہش حقیقی ہے۔ یہ وسیع پیمانے پر مشترک بھی ہے اور اسے حاصل بھی کیا جا سکتا ہے تاہم یہ یقینی طور پر تب ہو گا جب سرحد پار سے دہشت گردی ختم ہو جائے گی، جب حکومتیں بین الاقوامی برادری اور اپنی عوام کے ساتھ صاف و شفاف ہوں گی۔ جب اقلیتوں پر ظلم نہیں ہو گا اور جب ہم کم از کم اس اسمبلی کے سامنے ان حقائق کو تسلیم کریں گے۔بھارتی مندوب نے ہندو، سکھ اور مسیحی خاندانوں کی لڑکیوں کے مبینہ طور جبری اغوا اور شادیوں کے بعض حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ جو ملک اقلیتی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کرتا ہے، وہی عالمی پلیٹ فارم پر اقلیتوں کے بارے میں بات کر رہا ہے۔

اس سے پہلے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے انسانیت سوز مظالم کی صورتحال اقوام عالم کے سامنے اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے مظلوم کشمیری عوام کا حق غصب کرنے کے لئے مقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ بنادیا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل تک کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ، تنازعات کو پرامن مذاکرات سے ہی حل کیا جاسکتا ہے، ہمیں اپنے وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑنا ہوگا۔ پاکستانی عوام ہمیشہ مکمل یکجہتی کے ساتھ اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور اس وقت تک ان کی حمایت جاری رکھیں گے جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق ان کا حق خود ارادیت مکمل طور پر حاصل نہیں ہو جاتا۔ کشمیریوں پر بھارت کی جانب سے سلسلہ وار بربریت کئی شکلیں اختیار کر چکی ہے جس میں ماورائے عدالت قتل، قید، حراست میں تشدد اور اموات، طاقت کا اندھا دھند استعمال، کشمیری نوجوانوں کو پیلٹ گنوں سے جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور پوری آبادیوں پر اجتماعی سزائیں شامل ہیں۔ بھارت ایک مخصوص منصوبے کے تحت غیر قانونی آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کو ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لاکھوں جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ غیر کشمیریوں کو جاری کئے گئے ہیں، کشمیریوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور 2.5 ملین سے زیادہ غیر کشمیری غیر قانونی ووٹرز کو دھوکہ دہی سے رجسٹر کیا گیا ہے، یہ سب سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون بالخصوص چوتھے جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔ دہلی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو بڑھا کر 9 لاکھ تک پہنچا دیا ہے، اس طرح یہ دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ بن گیا ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ عالمی ادارہ اور سیکرٹری جنرل بھارت پر اقوام متحدہ کی طویل عرصے سے زیر التوا قراردادوں کو نافذ کرنے کیلئے زور دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔بھارت اس پیغام کو واضح طور پر سمجھے، دونوں ممالک پوری طرح مسلح ہیں اور جنگ کوئی آپشن نہیں ہے، صرف پرامن بات چیت سے ہی تنازعات کو حل کیا جا سکتاہے تاکہ مستقبل میں دنیا زیادہ پرامن قائم ہو سکے۔ ہم بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں تاہم جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام جموں و کشمیر تنازعہ کے منصفانہ اور دیرپا حل پر منحصر ہے، اس دیرینہ تنازعہ کی اصل وجہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے ناقابل تنسیخ حق سے انکار ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات، جموں و کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو تبدیل کرنے اور مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے اقدامات نے امن کے امکانات کو مزید کمزور کیا اور علاقائی کشیدگی کو ہوا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے خلاف بھارت کی مسلسل ظلم و جبر کی مہم بڑے پیمانے پر اور شدت کے ساتھ بڑھ رہی ہے، اس گھنائونے مقصد کیلئے نئی دہلی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو بڑھا کر 9 لاکھ تک پہنچا دیا ہے، اس طرح یہ دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ بن گیا ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیریوں پر بھارت کی جانب سے سلسلہ وار بربریت کئی شکلیں اختیار کر چکی ہے جس میں ماورائے عدالت قتل، قید، حراست میں تشدد اور اموات، طاقت کا اندھا دھند استعمال، کشمیری نوجوانوں کو پیلٹ گنوں سے جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور پوری آبادیوں پر اجتماعی سزائیں شامل ہیں۔ بھارت ایک مخصوص منصوبے کے تحت غیر قانونی آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کو ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لاکھوں جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ غیر کشمیریوں کو جاری کئے گئے ہیں، کشمیریوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور 2.5 ملین سے زیادہ غیر کشمیری غیر قانونی ووٹرز کو دھوکہ دہی سے رجسٹر کیا گیا ہے، یہ سب سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون بالخصوص چوتھے جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ پاکستانی عوام ہمیشہ مکمل یکجہتی کے ساتھ اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور اس وقت تک ان کی حمایت جاری رکھیں گے جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق ان کا حق خود ارادیت مکمل طور پر حاصل نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس باوقار پلیٹ فارم سے دنیا کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان جنوبی ایشیامیں امن کے لئے اپنے عزم پر قائم ہے، تعمیری بات چیت کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لئے بھارت کو قابل اعتماد اقدامات کرنے چاہئیں، اسے اپنے خلوص اور آمادگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے،5 اگست 2019 کے اپنے غیر قانونی اقدامات کو واپس لے کر امن اور مذاکرات کے راستے پر چلنا چاہئے اور مقبوضہ خطہ میں آبادیاتی تناسب کی تبدیلی کے عمل کو روک دینا چاہئے۔
وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ عالمی ادارہ اور سیکرٹری جنرل بھارت پر اقوام متحدہ کی طویل عرصے سے زیر التوا قراردادوں کو نافذ کرنے کیلئے زور دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور بھارت ہمسائے ہیں اور ہمیشہ ہمسائے رہیں گے، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا یا لڑتے رہنا ہے، 1947 سے اب تک دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں جن کا نتیجہ دونوں اطراف کیلئے صرف مصائب ، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ کی صورت میں نکلا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے اختلافات ، مسائل اور تنازعات کو پرامن ہمسایوں کی طرح بات چیت سے حل کریں اور اپنے محدود وسائل کو دونوں اطراف میں بسنے والے کروڑوں عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی کیلئے بروئے کا رلائیں۔ انہوں نے زور دیا کہ دونوں اقوام کو مزید گولہ بارود خریدنے اور خطہ میں کشیدگی میں اضافہ کیلئے اپنے وسائل کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ بھارت اس پیغام کو واضح طور پر سمجھے، دونوں ممالک پوری طرح مسلح ہیں اور جنگ کوئی آپشن نہیں ہے، صرف پرامن بات چیت سے ہی تنازعات کو حل کیا جا سکتاہے تاکہ مستقبل میں دنیا زیادہ پرامن قائم ہو سکے۔
انہوں نے کہاکہ ہم امن کے شراکت دار ہیں، ہم بھارت کے ساتھ پائیدار امن کے خواہاں ہیں اورامن کا قیام مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دینے سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آگے بڑھ کر اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل بیٹھنے، بات چیت کرنے اور مستقبل کیلئے راستہ بنانے کیلئے تیار ہوں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں مصائب اور مشکلات کا شکار نہ ہوں اور ہم اپنے وسائل کو اپنے عوام کی مشکلات میں کمی لانے کیلئے خرچ کریں۔



واپس کریں