دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس سے چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کا خطاب
No image اسلام آباد (کشیر رپورٹ) 24ستمبر2022۔چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کا سپریم کورٹ پاکستان میں The Role of Judiciary in maintaining the rule of law and supremacy of Constitution کے عنوان سے منعقد ہونے والی انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب۔ کانفرنس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس عمر عطا بندیال نے کی جبکہ چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان، قائم مقام چیف جج سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان، چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ، چیف جسٹس خیبر پختونخواہ کے علاوہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، سپریم کورٹ پاکستان اور تمام ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ کے سابق و موجودہ ججز، پورے پاکستان کے ڈسٹرکٹ ججز، بار کونسل اور تمام بار ایسوسی ایشنز کے عہدیداران، سینکڑوں وکلا۔ مختلف ممالک کے سفیروں، سفارتی نمائندوں، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اور سماجی کارکنان کی کثیر تعداد نے کانفرنس میں شرکت کی۔
چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جناب جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے اپنے خطاب میں آزاد ریاست جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی تاریخی حیثیت،جغرافیائی خدوخال اس خطہ کی آزادی کا تاریخی پس منظر بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس خطہ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ آزاد جموں و کشمیر میں قیمتی جنگلات کے ساتھ ساتھ بجلی پیدا کرنے کے وسیع مواقع ھیں اور تقریبا بیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جبکہ اس وقت 3000 میگاواٹ کے لگ بھگ بجلی پیدا ہو رہی ہے جو پاکستان کے نیشنل گرڈ میں جاتی ہے۔ انھوں نے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے قدرتی وسائل کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان سیاحوں کی جنت کے ساتھ ساتھ CPEC جیسے قومی اہمیت کے حامل منصوبہ کی راہداری ہے انھوں نے مزید کہا کہ آزاد جموں و کشمیر میں قیمتی پتھروں کے علاوہ دیگر معدنی وسائل بھی موجودہیں۔ ہر سال ہزاروں سیاح اس خطہ کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیئے آزاد جموں و کشمیر کا رخ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شاہ رگ قرار دیا ہے۔۔ انھوں نے جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کے دوران چیف جسٹس پاکستان کی توجہ میرپور منگلا ڈیم کے متاثرین کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ پانچ دہائیوں پہلے تعمیر ہونے والے ڈیم جس میں دو دہائیوں پہلے مزید توسیع کی گئی اور میرپور کے عوام نے جذبہ حب الوطنی کے تحت دو بار اپنے گھر، زرعی اراضی حتی کہ اپنے آبا و اجداد کی قبریں بھی قربان کر دیں لیکن واپڈا نے آج تک ان کو مناسب معاوضے ادا کئے اور نہ ہی ان کی آباد کاری کے مسائل حل کئے اور نہ ہی طے شدہ معاہدے کی پاسداری کی۔ بلکہ میرپور کے عوام کو معاوضوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں لا متناہی مقدمہ بازی کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے کہا کہ واپڈا آزاد جموں و کشمیر کی علاقائی حدود سے باھر ہے اس لئے میرپور کے عوام چیف جسٹس پاکستان کی خصوصی توجہ کے محتاج ہیں۔
انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں 2020 سے پہلے مقدمات زیر کار نہیں ہیں جب کہ ہائی کورٹ و ماتحت عدلیہ کی کارگزاری بھی قابل ستائش ہے۔ انھوں نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر میں عدالتی نظام پروگریسو ہے جو انتہائی قابل اطمینان ہے۔ رول آف لا پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آئین کسی ریاست کے لئے بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے اور اس ڈھانچہ کا کلیدی ستون عدلیہ ہے جبکہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کروانا ہے۔ اگر شہریوں کو علم ھو گا کہ ایک آزادانہ، منصفانہ نظام عدل موجود ہے اور قانون کا نفاذ ہر خاص و عام پر بلا امتیاز ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنے رویوں کو بھی اسی طرح ترتیب دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی اور نظام کائنات کی بقا کا گہرا تعلق ہے۔ ایک آزاد و خود مختار عدلیہ ہی شہری آزادیوں، بنیادی حقوق، آئین اور قانون کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی کی ضمانت ہے۔ ہم نے آزاد جموں و کشمیر میں بیشمار آئینی مقدمات میں تاریخی فیصلے دیئے ہیں اور آئین اور بنیادی حقوق کے خلاف پائے جانے والے تمام قوانین کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا۔ میری رائے میں قانون کی حکمرانی کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بھی نہایت ہی اہم کردار ہے۔ ان اداروں کے انفراسٹرکچر میں بہتری، تربیت اور لازمی سہولیات کی فراہمی سے ان کی استعداد کار کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کے شہریوں کو قانون کی حکمرانی سے آگہی کے لئے بھی ذرائع ابلاغ عامہ سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور اس سلسلہ میں سوشل میڈیا سے بھی مستفید ہوا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر نے اس موقع پر تمام شرکا ئے کانفرنس کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، غیر قانونی قیدو بند، خواتین کی عصمت دری، ماورائے عدالت قتل، سیاسی قیادت کی غیر قانونی نظر بندیوں اور برس ہا برس سے بے بنیاد مقدمات میں قید کشمیری سیاسی قائدین کے علاوہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948 میں منظور شدہ قرارداد نمبر 47 کے تحت حق خود ارادیت دیا ہے۔ جبکہ بھارت نے ہمیشہ کشمیریوں کے اس حق کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون تمام قوانین سے افضل ہونے کے ناطے دنیا کے تمام دساتیر پر مقدم اور واجب الاحترام ہے جب کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی کرتے ہوئے بھارت میں آٹھ لاکھ سے زائد فوجی دستے تعینات کر رکھے ھیں جو کشمیریوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ بھارت نے کشمیریوں کو طاقت کے بل بوتے پر بچھلے 70 سال سے زائد عرصہ محکوم بنانے کے مذموم کوشش کی اور جب بھارت کو اس میں ناکامی ہوئی تو پھر انھوں نے کشمیر میں آبادی کا توازن بدلنے کے لیے کشمیری اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو ڈومیسائل جاری کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کشمیری نہ پہلے کبھی اپنے حق خود ارادیت سے دستبردار ہوے اور نہ ہے آئندہ ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا انکار اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی ایک قانونی مسئلہ ہے لہذا اس کانفرانس کی وساطت سے پوری دنیا بشمول پاکستان کے قانون اور نظام انصاف سے وابستہ افراد، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور سفارتی نمائندے کشمیریوں کے قانونی حق خود ارادیت کے حصول کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
واپس کریں