دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب
No image نیویارک۔24ستمبر (کشیر رپورٹ)وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے مظلوم کشمیری عوام کا حق غصب کرنے کے لئے مقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ بنادیا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل تک کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ، تنازعات کو پرامن مذاکرات سے ہی حل کیا جاسکتا ہے، ہمیں اپنے وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑنا ہوگا۔ پاکستانی عوام ہمیشہ مکمل یکجہتی کے ساتھ اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور اس وقت تک ان کی حمایت جاری رکھیں گے جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق ان کا حق خود ارادیت مکمل طور پر حاصل نہیں ہو جاتا۔ کشمیریوں پر بھارت کی جانب سے سلسلہ وار بربریت کئی شکلیں اختیار کر چکی ہے جس میں ماورائے عدالت قتل، قید، حراست میں تشدد اور اموات، طاقت کا اندھا دھند استعمال، کشمیری نوجوانوں کو پیلٹ گنوں سے جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور پوری آبادیوں پر اجتماعی سزائیں شامل ہیں۔ بھارت ایک مخصوص منصوبے کے تحت غیر قانونی آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کو ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لاکھوں جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ غیر کشمیریوں کو جاری کئے گئے ہیں، کشمیریوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور 2.5 ملین سے زیادہ غیر کشمیری غیر قانونی ووٹرز کو دھوکہ دہی سے رجسٹر کیا گیا ہے، یہ سب سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون بالخصوص چوتھے جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔ دہلی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو بڑھا کر 9 لاکھ تک پہنچا دیا ہے، اس طرح یہ دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ بن گیا ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ عالمی ادارہ اور سیکرٹری جنرل بھارت پر اقوام متحدہ کی طویل عرصے سے زیر التوا قراردادوں کو نافذ کرنے کیلئے زور دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔بھارت اس پیغام کو واضح طور پر سمجھے، دونوں ممالک پوری طرح مسلح ہیں اور جنگ کوئی آپشن نہیں ہے، صرف پرامن بات چیت سے ہی تنازعات کو حل کیا جا سکتاہے تاکہ مستقبل میں دنیا زیادہ پرامن قائم ہو سکے۔
وزیرا عظم نے اپنی تقریر کا آغاز قرآن پاک کی آیات سے کیا ۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اپنے خطاب میں پاکستان میں سیلاب کی صورتحال کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات اور چیلنجز، تنازعہ کشمیر، مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم، پاک بھارت تعلقات ، فلسطین اور اہم عالمی تنازعات، ، افغانستان کی صورتحال، اسلاموفوبیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں سمیت تمام اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور کا احاطہ کیا۔
وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ دنیا کو پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک تہائی پاکستان ڈوبا ہوا ہے، عالمی حدت کے تباہ کن اثرات نے پاکستان میں زندگی کو ہمیشہ کیلئے تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، ہمیں اپنے جان و مال کے بھاری نقصان کی صورت میں عالمی بے عملی اور آب و ہوا کی ناانصافی کی دوہری قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے،انتہائی مشکل حالات میں امید اندھیرے کی بہترین دشمن ہے،پاکستان کی تعمیرنو تک اپنے بہادرلوگوں کے ساتھ خیموں اور خندقوں میں بقاکی جنگ لڑنے کے لئے پوری طرح پرعزم ہوں،قومی سلامتی کی تعریف اب بدل گئی ہے، قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کیلئے عالمی برادری کو یکجا ہونا پڑے گا اور مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنے کیلئے مل کر بیٹھنا ہوگا ورنہ جنگوں کیلئے کوئی میدان باقی نہیں رہے گا، آج جب میں اپنے ملک پاکستان کا احوال سنانے کے لئے یہاں کھڑا ہوں لیکن میرا دل و دماغ اس وقت بھی میرے ملک میں ہے ،ہم جس صدمے سے گزر رہے ہیں ، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ میں موسمیاتی آفت سے آنے والی تباہی کے بارے میں دنیا کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے یہاں آیا ہوں جس سے میرے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ 40 دن اور 40 راتوں تک ایک تباہ کن سیلاب ہم پر مسلط رہا جس نے صدیوں کا موسمیاتی ریکارڈ توڑ دیا ہے، آج بھی ملک کا بڑا حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے، خواتین اور بچوں سمیت 33 ملین افراد اب صحت کے خطرات سے دوچار ہیں جن میں ساڑھے 6 لاکھ حاملہ خواتین شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کے باعث1500 سے زائد لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 400 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں، بہت سے بیماری اور غذائی قلت کے خطرے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے لوگوں کو جانی نقصان اٹھانا پڑا،370 پل تباہ ، 10 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے ۔
ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ سیلاب کے باعث 13 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے ،چار ملین ایکڑ فصلیں بہہ گئیں ، لاکھوں بے گھر افراد اب بھی اپنے خاندانوں، مستقبل اور ان کے ذریعہ معاش کو پہنچنے والے نقصانات کے ساتھ اپنے خیمے لگانے کے لئے خشک زمین کی تلاش میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پاکستان متاثر ہورہا ہے،پاکستان میں اس طرح کی قدرتی آفت کو نہیں دیکھا ،ہمیں پہلے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اب سیلاب کا سامنا ہے حالانکہ دنیا میں جو کاربن فضا میں بھیجی جارہی ہے ، پاکستان کا اس میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے ، ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے اس کی وجہ ہم نہیں ہیں ۔ پاکستان نے گلوبل وارمنگ کے اثرات کی اس سے بڑی اور تباہ کن مثال کبھی نہیں دیکھی جہاں زندگی ہمیشہ کے لئے بدل گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس آفت کے دوران میں نے اپنے تباہ حال ملک کے ہر کونے کا دورہ کیا اور وقت گزارا، پاکستان میں لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟، ناقابل تردید اور تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ یہ آفت ہماری وجہ سے نہیں آئی بلکہ ہمارے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جنگلات جل رہے ہیں اور گرمی کی لہر 53 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکی ہے جو اسے کرہ ارض کا گرم ترین مقام بنا رہی ہے۔ ہم تباہ کن مون سون سے گزر رہے ہیں، جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسے انتہائی مناسب طریقے سے بیان کیا ہے، ایک بات بہت واضح ہے کہ جو کچھ پاکستان میں رونما ہوا ہے وہ پاکستان تک محدود نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپنی قوم کی طرف سے مشکل وقت میں مدد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا پاکستان کے دورے پر شکرگزار ہوں، سیکرٹری جنرل نے اپنی آنکھوں سے سیلاب متاثرین کو دیکھا ہے ۔ ترقیاتی فنڈ کا حصہ بھی ریسکیو اور ریلیف کے کاموں پر خرچ کر رہے ہیں ،سیلاب متاثرین میں 70 ارب کی رقم تقسیم کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ایک بات بہت واضح ہے کہ جو کچھ پاکستان میں رونما ہوا ہے وہ پاکستان تک محدود نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے صاف صاف کہا ہے کہ پاکستان جیسے سب سے زیادہ آب و ہوا کے خطرے کا شکار 10 ممالک ہیں لیکن گرین ہائوس گیسوں کا ایک فیصد سے بھی کم اخراج کرتے ہیں، اس صورتحال کے پیش نظر اقدامات کرنے کے بارے میں باتیں کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ اس موقع پر میں تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے پاکستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے متاثرین کے ساتھ خیموں میں وقت گزارا اور بارہا ہمیں اپنی حمایت اور مدد کا یقین دلایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں ان ممالک میں سے ہر ایک کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے سیلاب متاثرین کیلئے امداد بھیجی ہے اور ان کے نمائندوں کا بھی جو پاکستان میں مشکل ترین گھڑی میں ہمارے ساتھ یکجہتی کے لئے کھڑے ہیں، میں اپنی قوم کی طرف سے ایک بار پھر ان سب کو تہہ دل سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس ناگہانی آفت کے ہمارے ملک میں صحت اور اقتصادیات پر اثرات کا تخمینہ لگانا اس وقت مشکل ہے، میری اصل پریشانی اس چیلنج کے اگلے مرحلہ کے بارے میں ہے، جب کیمرے چلے جاتے ہیں اور توجہ صرف یوکرین جیسے تنازعات کی طرف منتقل ہو جاتی ہے تو اس تناظر میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسے بحران سے نمٹنے کے لئے اکیلے رہ جائیں گے جو ہمارا پیدا کردہ نہیں؟، 12 ہفتوں سے جاری ریسکیو اور ریلیف کی کوششوں کے بعد ہم بحالی اور تعمیرنو کہاں اور کیسے شروع کریں گے؟ وزیراعظم نے کہا کہ تقریبا11 ملین افراد غربت کی لکیر سے مزید نیچے چلے جائیں گے جبکہ دیگر تنگ شہری پناہ گاہوں میں منتقل ہو جائیں گے جس سے آب و ہوا سے مطابقت رکھنے والی سمارٹ تعمیرنو کے لئے بہت کم گنجائش باقی رہ جائے گی۔ ابھی کے لئے ہم نے تمام دستیاب وسائل کو قومی امدادی کوششوں کے لئے متحرک کر دیا ہے اور ترقیاتی فنڈز سمیت بجٹ کی تمام ترجیحات کو لاکھوں لوگوں کے ریسکیو اور فوری ضروریات کے لئے دوبارہ ترتیب دیا ہے، سب سے زیادہ متاثرہ 40 لاکھ گھرانوں کی خواتین سربراہان کو نقد رقوم کی منتقلی کئی ہفتے پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے شروع کی گئی جس کی مالیت 70 ارب روپے ہے لیکن اس وقت ہماری فوری ضروریات اور دستیاب وسائل کے درمیان فرق ناگہانی آفت کے باعث بہت بڑھ گیا ہے۔ یہاں پر جو سوال اٹھانا ہے وہ کافی آسان ہے، ہمارے لوگ اتنی زیادہ گلوبل وارمنگ کی قیمت کسی غلطی کے بغیر کیوں ادا کر رہے ہیں؟ موسمیاتی تبدیلوں کا سبب بننے والی گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں ہمارا کردار نہ ہونے کے برابر ہے، عالمی بے عملی اور آب و ہوا کی ناانصافی کی دوہری قیمت ہمارے خزانے اور ہمارے لوگوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ابھی طویل فاصلہ طے کرنا ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انتہائی مشکل حالات میں امید اندھیرے کی بہترین دشمن ہے اور پاکستانی غیر معمولی طور پر حوصلہ مند اور مضبوط لوگ جانے جاتے ہیں، اپنی طرف سے میں اس صدی کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان کی تعمیرنو تک اپنے لوگوں کے ساتھ خیموں اور خندقوں میں اپنی بقاکی جنگ لڑنے کے لئے پوری طرح پرعزم ہوں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم 21ویں صدی کے چیلنجوں کی طرف لوٹیں، آج قومی سلامتی کی پوری تعریف بدل چکی ہے اور جب تک کہ دنیا کے قائدین کم از کم متفقہ ایجنڈے پر کام کرنے کے لئے اکٹھے نہیں ہوتے جنگیں لڑنے کے لئے کوئی زمین نہیں رہے گی، فطرت سے انسانوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی اس وقت فوری ترجیح تیز رفتار اقتصادی ترقی کو یقینی بنانا اور لاکھوں لوگوں کو غربت اور بھوک سے نکالنا ہے، ایسی کسی بھی پالیسی کیلئے پاکستان کو ایک مستحکم بیرونی ماحول کی ضرورت ہے، ہم بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں تاہم جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام جموں و کشمیر تنازعہ کے منصفانہ اور دیرپا حل پر منحصر ہے، اس دیرینہ تنازعہ کی اصل وجہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے ناقابل تنسیخ حق سے انکار ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے مسئلہ کشمیر اور ہندوستانی مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال کے بارے میں کہا کہ5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات، جموں و کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو تبدیل کرنے اور مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے اقدامات نے امن کے امکانات کو مزید کمزور کیا اور علاقائی کشیدگی کو ہوا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے خلاف بھارت کی مسلسل ظلم و جبر کی مہم بڑے پیمانے پر اور شدت کے ساتھ بڑھ رہی ہے، اس گھنائونے مقصد کیلئے نئی دہلی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو بڑھا کر 9 لاکھ تک پہنچا دیا ہے، اس طرح یہ دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ بن گیا ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیریوں پر بھارت کی جانب سے سلسلہ وار بربریت کئی شکلیں اختیار کر چکی ہے جس میں ماورائے عدالت قتل، قید، حراست میں تشدد اور اموات، طاقت کا اندھا دھند استعمال، کشمیری نوجوانوں کو پیلٹ گنوں سے جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور پوری آبادیوں پر اجتماعی سزائیں شامل ہیں۔ بھارت ایک مخصوص منصوبے کے تحت غیر قانونی آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کو ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لاکھوں جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ غیر کشمیریوں کو جاری کئے گئے ہیں، کشمیریوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور 2.5 ملین سے زیادہ غیر کشمیری غیر قانونی ووٹرز کو دھوکہ دہی سے رجسٹر کیا گیا ہے، یہ سب سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون بالخصوص چوتھے جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ پاکستانی عوام ہمیشہ مکمل یکجہتی کے ساتھ اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور اس وقت تک ان کی حمایت جاری رکھیں گے جب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق ان کا حق خود ارادیت مکمل طور پر حاصل نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس باوقار پلیٹ فارم سے دنیا کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان جنوبی ایشیامیں امن کے لئے اپنے عزم پر قائم ہے، تعمیری بات چیت کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لئے بھارت کو قابل اعتماد اقدامات کرنے چاہئیں، اسے اپنے خلوص اور آمادگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے،5 اگست 2019 کے اپنے غیر قانونی اقدامات کو واپس لے کر امن اور مذاکرات کے راستے پر چلنا چاہئے اور مقبوضہ خطہ میں آبادیاتی تناسب کی تبدیلی کے عمل کو روک دینا چاہئے۔
وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ عالمی ادارہ اور سیکرٹری جنرل بھارت پر اقوام متحدہ کی طویل عرصے سے زیر التوا قراردادوں کو نافذ کرنے کیلئے زور دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور بھارت ہمسائے ہیں اور ہمیشہ ہمسائے رہیں گے، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا یا لڑتے رہنا ہے، 1947 سے اب تک دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں جن کا نتیجہ دونوں اطراف کیلئے صرف مصائب ، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ کی صورت میں نکلا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے اختلافات ، مسائل اور تنازعات کو پرامن ہمسایوں کی طرح بات چیت سے حل کریں اور اپنے محدود وسائل کو دونوں اطراف میں بسنے والے کروڑوں عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی کیلئے بروئے کا رلائیں۔ انہوں نے زور دیا کہ دونوں اقوام کو مزید گولہ بارود خریدنے اور خطہ میں کشیدگی میں اضافہ کیلئے اپنے وسائل کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ یہ مناسب وقت ہے کہ بھارت اس پیغام کو واضح طور پر سمجھے، دونوں ممالک پوری طرح مسلح ہیں اور جنگ کوئی آپشن نہیں ہے، صرف پرامن بات چیت سے ہی تنازعات کو حل کیا جا سکتاہے تاکہ مستقبل میں دنیا زیادہ پرامن قائم ہو سکے۔
انہوں نے کہاکہ ہم امن کے شراکت دار ہیں، ہم بھارت کے ساتھ پائیدار امن کے خواہاں ہیں اورامن کا قیام مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دینے سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آگے بڑھ کر اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل بیٹھنے، بات چیت کرنے اور مستقبل کیلئے راستہ بنانے کیلئے تیار ہوں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں مصائب اور مشکلات کا شکار نہ ہوں اور ہم اپنے وسائل کو اپنے عوام کی مشکلات میں کمی لانے کیلئے خرچ کریں۔
افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اسے منفرد چیلنج کا سامنا ہے، 3 کروڑ افغانی فعال معیشت اور بینکنگ نظام کے بغیر رہ رہے ہیں جس سے عام افغانوں کو بہتر مستقبل کی تشکیل کے قابل بنانے کیلئے روزگار فراہم ہوتا ہے، پاکستان ایک پرامن افغانستان کا خواہاں ہے جو اپنے تمام شہریوں کو جنس، نسل اور مذہب کی تفریق کئے بغیر عزت اور روزگار فراہم کرے۔ پاکستان تعلیم اور کام کے دوران افغان لڑکیوں اور خواتین کے احترام کے حق کی حوصلہ افزائی کیلئے کام کر رہا ہے، اس وقت افغان عبوری حکومت کے تنہا ہونے سے افغان عوام کے مسائل میں اضافہ ہو گا جوکہ پہلے ہی بے سہارا ہیں، تعمیری مذاکرات اور معاشی تعاون سے مثبت ردعمل سامنے آنے کی توقع ہے، پرامن، خوشحال اور مربوط افغانستان ہمارے اجتماعی مفاد میں ہے، ہمسائے ہونے کے ناطے پاکستان کا افغانستان کے امن و استحکام میں اہم کردار ہے، ہم نے افغانستان کے بہن بھائیوں کی مدد کیلئے انسانی بنیادوں پر کوششیں کی ہیں، ہمیں ایک اور خانہ جنگی، دہشت گردی، منشیات کی سمگلنگ اور نئے مہاجرین سے بچنا چاہئے کیونکہ افغانستان کا کوئی بھی ہمسایہ ملک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ان کیلئے انتظام کر سکے۔ پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کی معاشی مدد اور انسانی امداد کیلئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی 4 ارب 20 کروڑ ڈالر کی اپیل پر مثبت ردعمل ظاہر کرے، افغانستان کے منجمد مالی اثاثے بحال کئے جائیں جوکہ بینکنگ نظام کی بحالی کیلئے ضروری ہیں، پاکستان افغانستان میں سرگرم بڑے دہشت گرد گروپوں بالخصوص دولت اسلامیہ، تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ، ای ٹی آئی ایم اور آئی ایم یو سے لاحق خطرات کے بارے میں عالمی برادری کے سامنے گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے، افغان عبوری حکومت کی حمایت اور تعاون سے ان خطرات سے جامع طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے، عالمی برادری کو افغانستان کی انسانی ضروریات کو پورا کرنا چاہئے۔
شہباز شریف نے کہاکہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے، دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں، یہ ایک مفروضہ پر مبنی ہے جس میں غربت، محرومی، ناانصافی، نظرانداز کرنا اور مخصوص مفادات سے شدت آتی ہے، پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران دہشت گرد حملوں میں 80 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور 150 ارب روپے کا معاشی نقصان ہوا ہے، ہماری مسلح افواج نے عوام کی حمایت سے ملک میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تاہم ہمیں سرحد پار سے دہشت گرد حملوں کا سامنا ہے جس کو ہماراعلاقائی مخالف مالی مدد فراہم کرتا ہے ، ہم اس سرحد پار دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔
شہبازشریف نے کہاکہ اسلاموفوبیا ایک عالمی رجحان ہے، 9/11 کے بعد سے مسلمانوں کے بارے شکوک و شبہات اور امتیازی رویہ وبائی شکل اختیار کر گیا ہے، بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کے خلاف سرکاری سرپرستی میں مظالم اسلاموفوبیا کا بدترین مظہر ہیں، انہیں امتیازی قوانین،پالیسیوں، حجاب پر پابندی، مساجد پر حملے اور ہندو انتہا پسند ہجوم کے ہاتھوں تشدد جیسے رویے کا سامنا ہے، مجھے بالخصوص بعض انتہا پسند گروپوں کی جانب سے بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ پر شدید تشویش ہے۔ رواں سال کے آغاز پراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے او آئی سی کی جانب سے پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی ایک تاریخی قرارداد کو منظور کیا جس میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کیلئے عالمی دن کے طور پر مقرر کیا گیا، مجھے امید ہے کہ اسلاموفوبیا سے نمٹنے اور بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے اقوام متحدہ اور رکن ممالک کی جانب سے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کو مشرق وسطی میں شام اور یمن سمیت دیگر تنازعات پر گہری تشویش ہے، ہم ان کے پرامن حل کے فروغ کیلئے ہرممکن تعاون فراہم کریں گے۔
انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ طاقت کے بے دریغ استعمال اور فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں اور مسجد اقصی کی بار بار بے حرمتی کو فوری طور پر بند کرے۔ تنازعہ فلسطین کا واحد اور پائیدار حل ایک قابل قبول آزاد اور خودمختار ریاست ہے جس کی سرحدیں 1967سے پہلے کی ہوں اور القدس الشریف اس کا دارالحکومت ہو۔سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کو اقوام متحدہ کے منشور کے تحت اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
سلامتی کونسل کو مزید نمائندہ، جمہوری، شفاف، موثر اور جوابدہ بنانے کیلئے 11 نئے غیر مستقل اراکین کو شامل کر کے اس میں توسیع کی جانی چاہئے، نئے مستقل اراکین کو شامل کرنے سے کونسل کی فیصلہ سازی مفلوج ہو جائے گی، اس کے نمایاں نقصانات میں اضافہ ہوگا اور رکن ممالک کے خودمختار مساوات کے حصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے استحقاق کے نئے مراکز قائم ہوں گے۔ وزیراعظم نے یورپ میں امن کی بحال ، ایشیامیں جنگ سے گریز اور دنیا بھر میں پھیلتے ہوئے تنازعات کو حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اس سوچ کو بحال کرنا چاہئے جس پر اقوام متحدہ تشکیل پائی، یہ ایک ایسا وژن ہے جو اکثر قومی مفادات اور تسلط پسندانہ عزائم سے دھندلا جاتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے معاشرے ترقی پذیر ہیں اور ہمارے پاس لامحدود وسائل نہیں ہیں، ہمیں اپنے وسائل کو اپنے عوام اور بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کیلئے روزگار، تعلیم، صحت اور بااختیار بنانے کیلئے صرف کرنا ہے۔ وزیراعظم نے اس امر پر زور دیا کہ ہم ان سب کے ساتھ مل کر کام کریں گے جو اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں کے مطابق اس کے وژن کو بحال کرنے کیلئے پرعزم ہیں جوکہ اقوام متحدہ نے عالمی امن، تحفظ اور عالمگیر خوشحالی کے فروغ کے حصول کیلئے تشکیل دیاہے۔



واپس کریں