بینک آف آزاد جموں وکشمیر پرکرپشن کے الزامات کی آڑ میں مہذب ڈکیتی
ملک عبدالحکیم کشمیری
یہ معاملہ صرف تین کروڑ کا ہے ، صرف تین کروڑ جو بینک آف آزاد جموں وکشمیر اس کمپنی سالانہ ادا کرنے کا پابند ہے جس نے بینک کو شروع کے دنوں میں کام چلاؤ پالیسی کے تحت سافٹ ویئر فراہم کیا تھا ۔اب بینک کی ضرورت جدید سافٹ وئیر ہے تاکہ اس فیلڈ میں دوسرے بینکوں کے برابر مقام بنایا جا سکے ۔ مگر جب سافٹ وئیر خریدنے کی بات اتی ہے کاری گر حرکت میں آتے ہیں کرپشن کا الزام عائد ہوتا ہے اور سافٹ ویئر کی خریداری کا معاملہ التوا کا شکار ہو جاتا ہے ۔کیوں ؟ محض 83 ہزار یومیہ 25 لاکھ ماہانہ اور 3 کروڑ روپے سالانہ کے لیے ۔
کرپشن کے الزام کی آڑ میں اپنے پاؤ گوشت کے لیے بھینس ذبح کرنے والے انتہائی مہارت سے مسلسل مہذب ڈکیتی کر رہے ہیں ۔ بہ الفاظ دیگر ناچ ناچ کر یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ ناچ گانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ بینک آف آزاد جموں و کشمیر 2006 میں سردار عتیق احمد خان نے قائم کیا ۔ غالباً 25 کروڑ سے اس کی بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت بینک کی 80 سے زائد برانچیں ہیں ،25 کروڑ کی ابتدائی رقم 6 ارب تک پہنچ چکی ہے ،بینک کے اثاثے 33 ارب تک بتائے جاتے ہیں ۔ سالانہ خالص منافع ایک ارب 20 کروڑ تک ہے۔نان شیڈول ہونے کے باوجود 6 ارب کے قریب قریب سالانہ باہر سے ترسیلات آتی ہیں اگر شیڈول ہو جائے تو ترسیلات کا حجم 30 سے 40 ارب تک جا سکتا ہے اور اگر پاکستان کے اہم شہروں میں برانچیں قائم کرنے کا ہدف پورا ہو جائے تو مجموعی حجم 100 ارب سے زائد ناممکن نہیں ۔
کیا سروسز فراہم کرنے کا موجودہ معیار ہے کہ لوگ اس بینک میں اکاؤنٹ کھولیں یا یورپ میں مقیم جموں کشمیر کے باشندے اپنے عزیزوں کو اس بینک کے ذریعے رقم بھیجیں ؟ میرا خیال ہے نہیں ۔ اب تک جو ڈویلپمنٹ پراگرس یا کارکردگی دیکھنے کو ملی بینک اسٹاف کی ذاتی محنت اور تعلقات کی وجہ سے ہے ۔ وہ معیار جو کسٹمرز کو سپیڈی اور معیاری سروسز فراہم کرے صرف شیڈول فہرست میں جانے سے ممکن ہے ۔شیڈول کی شرائط میں پہلی اہلیت عالمی معیار کی ای بینکنگ دوسری 10 ارب رقم ہے، بینک کے پاس 6 ارب ہے 4 ارب پرائیویٹ سیکٹر سے دنوں میں لایا جا سکتا ہے صرف یہ یقین دہانی موجود ہو کہ بینک شیڈول ہونے والا ہے۔ تیسری اور اہم ترین شرط بینک سٹاف کی استعداد کار جدید بینکنگ تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
بینک آف آزاد جموں وکشمیر جب اس طرف ایک قدم آگے بڑھتا ہے ایک گروہ اپنے سیاسی اور "مخصوص" تعلقات کا تاثر دے کر روک دیتا ہے ۔ اس لیے کہ "تین کروڑ سالانہ" کا معاملہ ہے ۔بینک نے کچھ عرصہ قبل اشتہار دیا ، سنگاپور کی کمپنی "سلور لیک" نے کوالیفائی کیا ایک ارب 70 کروڑ میں سافٹ اور ہارڈ ویئر حتمی ہوگیا جس میں سافٹ ویئر کی قیمت صرف 49 کروڑ 50 لاکھ ہے باقی ایک ارب 20 کروڑ کا ہارڈ وئیر ہے ۔ سلور لیک کا سافٹ ویئر مسلم کمرشل بینک یونائیٹڈ بینک بھی استعمال کر رہے ہیں ایم سی بی نے 23 ارب اور یو بی ایل نے 18 ارب میں سلور لیک سے یہی سافٹ وئیر اور ہارڈ ویئر خریدا زیادہ ادائیگی کی وجہ ان بینکوں کی برانچیں زیادہ ہونا ہے کیونکہ ہر برانچ میں ہارڈ ویئر بھی فراہم کرنا ہوتا ہے ۔
کرپشن کے الزامات کے بعد کیا ہوا ؟ اس کی تفصیل میں جانے سے قبل بھارتی مقبوضہ کشمیر کے بینک آف جموں کشمیر پر ایک نظر ۔یکم اکتوبر 1938 میں ہری سنگھ نے قائم کیا ۔ اثاثے 18 بلین ڈالر ۔آپریٹنگ ان کم 230 ملین ڈالر (پاکستانی کرنسی میں 64ارب 56 کروڑ سالانہ) ۔نیٹ ان کم 150 ملین ڈالر (پاکستانی کرنسی میں 42 ارب 10 کروڑ سالانہ)۔ریونیو 1ارب 30 کروڑ ڈالر (پاکستانی کرنسی میں 364 ارب سالانہ) ۔ ملازمین کی تعداد 12 ہزار 307 ۔ یہ سب کچھ یہاں ممکن ہے ہمارے 10 لاکھ سے زائد لوگ جو یورپ اور مشرق وسطیٰ میں معاشی مہاجر ہیں ان کی طرف سے بھیجی گئی رقم سے ہزاروں لوگوں کو روزگار دینے کے ساتھ ساتھ ریاست کے معاشی معاملات کو بھی سہارا مل سکتا ہے۔
سابقہ چیف سیکریٹری آزاد کشمیر کے حکم پر سیکرٹریز حکومت کی سربراہی میں بننے والی دو کمیٹیوں کی رپورٹس کی روشنی میں الزام عائد کرنے والوں کا مسئلہ سامنے آ جاتا ہے ۔یہ معاملہ عدالت میں ہے ۔خواہش ہے 15 جولائی کو جوڈیشل کانفرنس میں چیف جسٹس عدالت عالیہ صداقت حسین راجہ نے جو کہا اس کی روح کے مطابق اس پر عمل اور کرپشن یا جھوٹا مقدمہ کرنے والوں میں سے کسی ایک کو سزا ہو۔ اگر معاملات شفاف ہیں حکومت آزاد کشمیر سیکرٹریز حکومت کی انکوائری رپورٹ سے مطمئن ہے تو بینک کو شیڈول کرنے کے لیے جملہ معاملات ہنگامی بنیادوں پر یکسو کیے جائیں ۔
واپس کریں