ملک عبدالحکیم کشمیری
آزاد کشمیر کی "انقلابی حکومت" سفارت خانے (کشمیر ہاؤس اسلام آباد) سے باہر ہی نہیں آرہی.
انج گیا جندرا نوں
مڑ آیا نہ اندرا نوں ۔
خیال گماں سے ہوتا ہوا یقین تک پہنچ گیا تھا کہ انقلابی حکومت کا نیا وزیراعظم انوار الحق نظام میں بہتری لائے گا۔
مگر ۔۔
حکم سرکار کی پہنچ مت پوچھ
اہل سرکار تک نہیں پہنچا ۔
لوگ آٹے کے لیے کس قدر پریشان ہیں کاش کشمیر ہاؤس میں بیٹھی بھاری کابینہ کو احساس ہوتا۔ پورے دعوے سے کہ رہا ہوں درجنوں سیکڑوں نہیں ہزاروں گھرانے فاقہ کشی کا شکار ہیں ۔
کیا آنکھیں بند کر کے معاملہ لٹکا دینا اس کا علاج ہے ؟؟؟
کیا نگہبانی کے فرائض کی بجا آوری یوں ہوتی ہے ۔
سرکار ہو یا سرکاری آفیسرز انھیں معلوم ہونا چاہیئے لچھے دار باتوں اور بیانات سے لوگوں کے پیٹ نہیں بھرتے ۔
عمل کی طرف انا ہوگا وقت کم ہے آٹے کی وجہ سے ایک قتل ہو گیا ایف آئی آر چیف ایگزیکٹو کے خلاف درج ہو گی ۔
قضیہ بالکل سیدھا ہے ۔۔
حکومت آزاد کشمیر پاسکو کی 12 ارب 2 کروڑ کی مقروض ہے ۔
مالی سال 24_2023 کے لیے سبسڈی اور دیگر اخراجات کی مد میں 11 ارب 72 کروڑ کی ضرورت ہے ۔
کیا آٹے کی سبسڈی کے لیے سالانہ 11 ارب 72 کروڑ روپے کے وسائل کا اہتمام کیا جا سکتا ہے یا اس مسئلے کو ٹارگٹڈ سبسڈی سے ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے یہی وہ کام ہے جو حکومت کے کرنے کا ہے ۔۔
یہ مسئلہ ہے کیا ؟
آزاد کشمیر حکومت پاسکو سے سالانہ تین لاکھ ٹن گندم خریدتی ہے محکمہ خوراک کے مطابق 60 فیصد آبادی کو سبسڈی پر آٹا فراہم کیا جاتا ہے گزشتہ سال سبسڈی پر 12 ارب 2 کروڑ روپے اخراجات آئے اور 30 جون 2024 تک 11 ارب 72 کروڑ روپے اخراجات متوقع ہیں ۔
امسال حکومت پاکستان نے گندم کی فی من قیمت 4000 روپے طے کی ، آزاد کشمیر میں ٹرانسپوٹیشن پسوائی پیکنگ ڈھلائی منڈی سے مرکزی گودام اور وہاں سے محکمہ خوراک کے گوداموں تک کے عمل کے ایک من گندم پر تین سو روپے اخراجات آتے ہیں اس طرح فی من آٹے کی لاگت 4300 روپے بنتی ہے یہی آٹا 3100 روپے من فراہم کیا جاتا ہے نتیجتاً 1200 روپے فی من حکومت آزاد کشمیر سبسڈی کی مد میں ادا کرتی ہے
گندم کی قیمت کا تعین فصل کی تیاری پر اپریل میں ہوتا ہے اپریل میں جب گندم کی نئی قیمت کے حساب سے آزاد کشمیر میں آٹے کی قیمت بڑھائی گئی وہ عرصہ انوار الحق کے بطورِ وزیراعظم تقرری کا تھا کارکردگی دکھانے کے لیے پرانی قیمت بحال کی گئی اس طرح کم قیمت کی وجہ سے طلب اور رسد کے درمیان فرق سمگلنگ ذخیرہ اندوزی کا باعث بنا اور اٹے کی قلت پیدا ہوگئی ۔
گزشتہ مالی سال میں طے شدہ کوٹے تین لاکھ ٹن سے پانچ ہزار ٹن زائد گندم خریدی گئی مگر بحران ختم نہ ہو سکا۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟
حکومت ٹارگٹڈ سبسڈی کی رقم مستحقین کے اکاؤنٹ میں براہ راست ماہانہ بنیادوں پر منتقل کرے ۔
مستحقین کون ؟
وہ جن کا نام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل ہے وہ جو زکوٰۃ لیتے ہیں وہ جو بیت المال سے استفادہ کرتے ہیں وہ جو گریڈ ایک سے 9 تک کے ملازم ہیں اور وہ لوگ جنھیں حکومت سروے کے ذریعے مستحقین کی فہرست میں شامل کرے۔
یہ واحد راستہ ہے گندم اور آٹا مافیا کو لگام ڈالنے کا ۔ پاسکو سے فلور مل ہا تک گندم کی سپلائی کی مانیٹرنگ کے نظام کی عدم دستیابی اور دریائے جہلم کے ایک طرف آٹا 1200 روپے فی من مہنگا ہو حکومت سیکڑوں ڈی سی لگا دے سمگلنگ نہیں روک سکتی ۔
آٹے کی کمی اب بزنس بن چکی ہے
سال 2023 کے پہلے 6 ماہ میں 941 آٹے کے لائسنس دیے گے سال 2021 میں آزاد کشمیر میں آٹا فراہمی کے لائسنس 5173 تھے اور سال 2023 میں یہ تعداد 6960 تک پہنچ چکی ہے ۔
بتایا جاتا 3 ہزار کی ابادی پر ایک لائسنس دیا جاتا ہے یوں جاری شدہ لائسنس ہا پر ہماری ابادی 2 کروڑ 8 لاکھ بنتی پے۔
خیر اس طرح کی باتیں ہمارے ہاں معمول ہے ۔
مگر انوارالحق سے اتنی گزارش ہے جو بھی فیصلہ کرنا ہے جلدی کریں ۔
بھوک انتظار نہیں کرتی ۔
واپس کریں