دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فیصلہ سیاسی کامیابی ،ناکامی نہیں، ملک قائم رکھنے کا ہے
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
موجودہ ملکی صورتحال میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ سمیت تمام ادارے، محکمے ہائبرڈ نظام کی ہدایات کے تابع چل رہے ہیں یا چلائے جا رہے ہیں۔ہائبڑڈ نظام اتنا کھل کر فیصلے اور اقدامات کر رہا ہے ، اس ہائبرڈ نظام نے اپنی غیر قانونی، غیر آئینی حرکات سے خود کوا تنا ایکسپوز کر دیا ہے کہ اب ہائبرڈ کا نام استعمال کرتے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔بات پارلیمنٹ کی ہو، حکومت ،عدلیہ یا الیکشن کمیشن کی ،ہر جگہ ہائبرڈ نظام کی پھرتیاں عریاں ہو چکی ہیں۔بقول شاعر
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمار ا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

2018کے غیر منصفانہ ،غیر شفاف اور غیر آزادانہ الیکشن کے بعد ' پی ڈی ایم' اتحاد نے ملکی نظام کو چلتا رہنے کی دلیل کے ساتھ قبول کیا لیکن عمران خان کی سربراہی میں قائم کردہ حکومت کے ملک و عوام کے لئے تباہ کن اقدامات نے ' پی ڈی ایم' اتحاد کو اس بات پہ مجبور کیا کہ اس حکومت کو اپنی معیادپوری نہ کرنی دی جائے۔13سیاسی جماعتوں کے' پی ڈی ایم' اتحاد کو عوام نے ملکی حاکمیت کا قبلہ درست کئے جانے کی کوشش اور عزم کے طور پر دیکھتے ہوئے اس کی حمایت کی ۔لیکن عمران خان حکومت کی طرف سے ملک میں بدترین فاشسٹ نظام کی تشکیل کے اقدامات دیکھتے ہوئے ' پی ڈی ایم' اتحاد حکومت کی تبدیلی کے لئے ہائبرڈ نظام سے ' کچھ لو کچھ دو' کی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہوا۔مسلم لیگ ن کی سربراہی میں' پی ڈی ایم ' اتحادحکومت کی تشکیل سے صورتحال یوں سامنے آئی کہ ' پی ڈی ایم' سابق حکومت اور حکومت سے نکالے گئے عمران خان ' پی ڈی ایم' کے بیانئے کو سیاسی ہتھیار بنائے نظر آنے لگے۔عمران خان حکومت کی بدنامیاں ' پی ڈی ایم ' اتحاد سے منسلک نظر آنے لگیں اور عمران خان اور ان کے اتحادی '' گنگا میں نہا کر پوتر' ' ہو نے کے دعویدار ہوئے۔

عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور ' پی ڈی ایم' اتحاد کی حکومت کے قیام کی صورتحال سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ملک پہ ہائبرڈ نظام قائم کرنے والوں کے دو گروپ متحرک ہیں، ایک کی حمایت ' پی ڈی ایم' اور دوسرے کی حمایت عمران خان کے لئے ظاہر ہوئی۔ہائبرڈ نظام کی یہ گروپنگ نئے چیف کی تقرری تک جاری رہنے کی توقع ہے۔حکومت کی تبدیلی کے وقت پہلا گروپ طاقتور نظر آ رہا تھا لیکن پھر دوسرے گروپ کی شطرنج کی چالوں نے عمران خان کا پلہ بھاری ہونے کی صورتحال پیدا کر دی۔پنجاب میں عمران خان اور ان کی اتحادی حکومت کے قیام میں مسلم لیگ ن کی سربراہی میں قائم ' پی ڈی ایم ' اتحاد کی بے بسی شکوے کے انداز میں سامنے آئی ہے۔' پی ڈی ایم' حکومت ہائبرڈ نظام پر براہ راست تنقید کرنے کے بجائے بالواسطہ ایسی اپیلیں کرتے نظر آ رہی ہے کہ لاڈلے کو لاڈلا نہ بنایا جائے۔لیکن بقول نوابزادہ نصراللہ خان
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے

مسلم لیگ ن نے اتفاق رائے سے نواز شریف کے بیانیہ کو چھوڑ کر شہباز شریف کی حکمت عملی کو اپنا تو لیا لیکن اس انداز سیاست نے مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ ' پی ڈی ایم' کی سیاست کو بھی ناتوانی اور ناکامی سے ہمکنار کرتے ہوئے عوام میں بھی ناپسندیدگی کو واضح کیا ہے۔عمران خان اس صورتحال میں اتنے پرامید ہیں کہ وہ ایک کرکٹر کی طرح جارحانہ انداز اپناتے ہوئے'' فرنٹ فٹ '' پہ کھیلنے کو کامیابی کا طریقہ سمجھنے لگے ہیں ۔ لیکن بطور کرکٹر عمران خان کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ کامیابی کے جوش میں اپنا ساتھ نہ دینے والوں کو شرک کے گناہ کے مرتکب کے مترادف قرار دیتے ہوئے اتنے آگے نکل رہے ہیں کہ ان کے '' سٹیمپ آئوٹ'' ہونے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔

اب لے دے کر نئے الیکشن کو ہی ملک کے تمام مسائل کا حل قرار دیا جار ہاہے۔کئی اہم ملکی شخصیات کے علاوہ سابق سینئر سفارت کار عبدالباسط اور شمشاد احمدخان کی فہم و فراست بھی یہی کہنے کی کوشش کر رہی ہے کہ عام انتخابات ہی ملک کے لئے بہتر راستے کا انتخاب ہیں۔ دوسری طرف ' پی ڈی ایم' اتحاد کی حکومت کا فیصلہ ہے کہ موجود ہ حکومت اپنی معیاد پوری کرے گی اور عام انتخابات اگلے سال اپنے مقررہ وقت پہ ہی ہوں گے۔ تاہم مختلف عناصر کی طرف سے عام انتخابات اسی سال کرانے کی کوششیں بھی تیز سے تیز ہو رہی ہیں۔

معاشی طور پر شدید ابتری کے حالات میں ' پی ڈی ایم' حکومت کے لئے یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ وہ چند ماہ میں ملک اور عوام کے لئے اقتصادی طور پر کوئی بہتر منظر نامہ پیش کر سکتی ہے۔ اس صورتحال میں اس حکومت کے لئے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں کہ وہ ہائبرڈ نظام مسلط کرنے والوں سے اپیلیں کرنے اور ذمہ دارشخصیات کا نام لئے بغیر اشاروں کنایوں میں باتیں کرنے کے بجائے کھل کر حقائق عوام کے سامنے لائے۔ اب ' پی ڈی ایم ' کے لئے جارحانہ انداز اپنانے کا وقت ہے، دفاعی حکمت عملی نے حکومت کو کمزور اور لاچار ہی نہیں کیا بلکہ عوام میں بھی اسے ناپسندیدگی سے دیکھا جارہاہے۔ ' پی ڈی ایم' کو اس بات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے کہ انہیں بھی عمران خان کی طرح حکومت سے نکال دیا جائے گابلکہ اگر جارحانہ انداز اپنانے پر حکومت تبدیل کی جاتی ہے تو یہ ' پی ڈی ایم' اتحاد کے لئے عوامی حمایت پر مبنی سیاسی قوت میں اضافے کا موجب ہو گی۔

ملکی صورتحال کے اس منظر نامے میں نئے چیف کی تقرری کا معاملہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ نئے چیف کی تقرری سے ہی واضح ہو گا کہ نئی قیادت کن خطو ط پر چلتی ہے؟ ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف الیکشن کا راستہ اپناتے ہوئے نئی پارلیمنٹ ، حکومت کو ملکی حاکمیت کا اختیار منتقل ہونے پر یقین رکھتی ہے یا ملک پہ مسلط ہائبرڈ نظام کو ہی ملک اور عوام کے مفاد میں بہترین پالیسی اور تقدیر قرار دیا جاتا ہے؟ یوں عوام کے سامنے یہ بڑے سوال ہیں کہ کیا انتخابات ہائبرڈ نظام کی چیرہ دستیوں سے آزاد، شفاف اور منصفانہ ہوں گے اور کیا انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو خارجہ ،دفاع سمیت ملک کی تقدیر کے اہم فیصلے کرنے کا اختیار ہائبرڈ نظام مسلط کرنے والوں سے پارلیمنٹ اور نئی حکومت کو منتقل کر دیا جائے گا؟ یہ فیصلہ سیاسی جماعتوں اور اداروں کے مفادات اور نقصانات تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک کی بقاء اور سلامتی بھی اسی فیصلے سے منسلک اور مربوط ہے۔

واپس کریں