دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کی جمہوریت کی حقیقت اور حالت زار
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
بدقسمتی سے پاکستان میں پچھلے ستر سال کی ” منصوبہ بند جمہوریت “ اور نرسریوں میں پروان چڑھاٸی گٸی قیادت کی موجودگی میں عوام کے لٸیے انتخاب بہت محدود ہو جاتا ہے، خصوصاً تب جب اطراف میں متبادل کی شکل میں ٹاوٹ نمامنافق اسلام کے نام پر سیاست کرنے والی پارٹیاں , اور مزہبی نفرت اور تعصب کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ” تحریک لبیک “ جیسا خونخوار گروہ موجود ہے , ان کے ساتھ ہی تاک میں بیٹھا ہوا ریزرو کی شکل میں تحریک طالبان پاکستان اور ان جیسے ہی دیگر گروہ ہیں۔ ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ عوام اور باشعور سول سوساٸٹی کو خوفزدہ اور مغلوب کرنے کے لٸیے کن طاقتوں نے ایسے گروہوں کی تشکیل اور سرپرستی کی , اور پچھلے ستر سال سے آج کے دن تک اُس مقتدر گروہ نے سیاست اور ملک کی ڈراٸیونگ سیٹ پر کسی کو اختیار کے ساتھ بیٹھنے نہیں دیا ۔ چاہے اس کے لٸیے انھیں بیرونی طاقتوں کے ہی ملک دشمن ایجنڈے پر ہی کیوں نہ کام کرنا پڑے , یہ عناصر عوام کی گردن اپنے گھٹنے کے نیچے سے آزاد کرنے اور ان کو سانس لینے کا موقع دینے کو تیار نہیں , تو اس منظر نامے میں فرانس جیسے ملک اور فلاسفرز کے شعور اور معیار کی باتوں کی کوٸی گنجاٸش نہیں , لیکن وہاں بھی ایلن بیڈیو جیسا فلسفی یہ کہتا ہے کہ " جب تک مجھے موجودہ نظام سے بھی بہتر نظام نہیں مل جاتا ، میں اس نظام پر تنقید کرتا رہوں گا ، میں فلاسفر ہوں صحافی نہیں "۔

اور اس پر یہ بھی کہ عوام کو کچھ تو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ جاہل رکھا گیا ہے دوسرے مزھبی تعصب اور آباٸی اثرات نے عوام کی ایک ایسی جاہل اور خطرناک اکثریت تیار کی ہے جو نہ تو جمہوریت , اور نہ ہی کسی انسانیت اور شعور جیسی کسی چیز سے متعارف ہیں نہ ان پر یقین رکھتے ہیں , ان کے نزدیک مساٸل کا حل حجاج جیسا کوٸی حکمران ہے، جو عوام سے اپنے خطبے میں تلوار سامنے رکھ کربیٹھتا ہو ,, بقول ان کےیہ قوم ڈنڈے سے ہی سیدھی رہ سکتی ہے ۔۔ یہ خیالات ان میں پوری منصوبہ بندی سے کسی دیر اثر زہرکی طرح ” انجیکٹ “ کٸیے گٸے ہیں لہزا اس زہر کے زیر اثر عوام تجزیہ , موازنہ کرنے اور حالات و واقعات اور شخصیات کے بارے میں درست فہم , پہچان اور انتخاب کی صفات سے مکمل طور پر محروم بنا دٸیے جا چکے ہیں , جس طرح جیل کے قیدیوں کے لٸیے زندگی اور روز و شب کا آزاد شہریوں سے الگ شیڈول , ان کے کھانے کے لٸیے زرا مختلف قسم کا انتظام اور ماحول رکھا اور تشکیل دیا جاتا ہے , اسی لٸیے پاکستان کے عوام کی اکثریت کے لٸیے کسی جیل کے بدقسمت قیدیوں ہی کی طرح الگ نظام تعلیم یا نظامِ جاہلیت اور بہت تلخ اور مشکل سلسلہ روز و شب تشکیل دٸیے جاتے ہیں ان کو بہت بنیادی انسانی معیار کے لٸیے ضروری بنیادی ضروریات کے لٸیے ہر روز جی جی کر مرنا پڑتا ہے ان کے لٸیے زندگی گزارنا , تعلیم اور روز گار حاصل کرنا , معیاری علاج کروانا , اچھی تعلیم حاصل کرنا , جوے شِیرلانےکےمترادف بنا کر رکھ دیا گیا ہے تاکہ ان کے زہنوں میں کسی قسم کا کوٸی حقوق و فراٸض کا شعور پنپ ہی نہ سکے، ان کی پہلی اور آخری ترجیع اگلے وقت کی روٹی اور سامنے لیٹے بیمار بچے کا علاج ہو ۔

دوسری طرف اشرافیہ , امراء اور اصل اہل اقتدار ہیں , جن کے لٸیے اس سرزمین پر ارضی جنت کا ماحول ہے , ان کے بچے دنیا بھر میں جا کر اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان کو بہترین علاج , معیاری سہولیات سے مزین رہاٸشی ماحول اور طرز زندگی میسر ہے , اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس طبقے نے اپنی رہاٸش تک کے لٸیے خود کو ” گیٹڈ کمیونٹیز “ کی شکل میں اکثریتی محروم عوام سے مکمل طور پر الگ کر لیا ہے , آپ جہاں ہیں اور جس ماحول میں رہتے ہیں وہاں سے منظر دیکھا جاے تو ویسا ہی دکھاٸی دیتا ہے , درحقیقت پاکستان میں یہ صورتحال ہے کہ ہمیں سیاسی جماعتوں کی آڑ میں کھڑے کٸیے گٸے مزہبی و غیر مزہبی ” غنڈوں “ میں سے ہی انتخاب کرنا ہوتا ہے لہزا ہم سامنے موجود بہت سی مختلف درجے کی براٸیوں میں سے اپنے تٸیں ” کم تر براٸی “ کا انتخاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

جہاں تک یہاں اس تمام المناک اور ظالمانہ نظام اور صورتحال کو بدلنے کا تعلق ہے تو جس طرح کچھ امراض کے علاج کی ادویات خود بہت خطرناک اور نقصان دہ ہوتی ہیں لیکن ان کو بہ امر مجبوری استعمال کرنا پڑتا ہے , تاکہ اس شدید اور جان لیوا مرض کا علاج ہو سکے , یہاں "نقصان دہ" اور "جان لیوا " کا فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ایسے ہی پاکستان کے عوام کی اکثریت کو لاحق اور مسلط ان امراض کا علاج نہ تو مزھب کے پاس ہے، اور نہ ہی مہزب ممالک کی جمہوریت کے پاس , کیونکہ جمہوریت کے کامیاب نفاز اور اس کے فواٸد حاصل کرنے کے لٸیے اچھی تعلیم و تہزیب اور اعلیٰ شعور کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا احترام یا کم از کم اس کی نیت موجود ہونا ضروری ہے، ان صفات کے بغیر جمہوریت اپنا ثمر نہیں دے سکتی، نہ ہی اس کا افادہ عوام تک پہنچ سکتا ہے ۔ اور مزھب سے کوٸی بہتری کی امید رکھنا بھی خود کو دھوکے میں رکھنے کی بات ہے کیونکہ مزھب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ سے اقتدار کا ساتھی , مددگار بلکہ ہتھیار رہا ہے ، جب جب تاریخ کے کسی دور میں انسان نے مزھب کو بطور طرز حکومت آزمایا یا موقع دیا ہے اس کے اندر سے تشدد ، انسانی خون کے اڑتے چھینٹے اور بالآخر شخصی آمریت ہی برآمد ہوئی ۔

میری مخلصانہ راے میں جو حالت پاکستان اور اس کے عوام کی اکثریت کی بنا دی گٸی ہے , عدم تحفظ اور بےیقینی نے ہر کسی کو اپنی بقاء کے لٸیے ایک خطرناک ” جارحانہ, مدافعتی“ رویہ اپنانے پر مجبور کر دیا ہے , یہاں اب ہر کسی کو ہر کسی سے خطرہ ہے, والی صورتحال پیدا ہو چکی ہے , لہزا ان امراض کا علاج سوشلزم اور مساوات کے نظام کے علاوہ کچھ نہیں تاکہ عوام کی زندگی کے حاصل شدہ اور غیر حاصل شدہ لوازمات کے حصول کے لٸیے بےیقینی , ظلم , استحصال اور تعصب کا خاتمہ ممکن ہو سکے ۔ اور اس محروم بدنصیب اکثریت کو بھی اپنے اور اپنے جیسے دوسروں کے انسان ہونے کا درست احساس، شعور اور تجربہ ہو سکے ۔ (

واپس کریں