دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسٹبلشمنٹ کی مصالحانہ کاوشیں، اپوزیشن اور پاکستانی سیاست
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
پاکستانی سیاست میں اتوار تک تھیلے سے بہت سی بلیاں نکل کر سامنے آ سکتی ہیں لیکن ایک ہی تقریر اور ایک ہی متن کے بیانات سے آخر کیا فرق پڑنے والا ہے؟ عمران خان نے آج اسلام آباد میں سیکورٹی ڈائیلاگ میں تقریر کی اور ایک ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیا۔ عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ اسٹبلشمنٹ یعنی فوجی قیادت نے ان کے ساتھ ملاقات میں تین آپشن دیے تھے۔ استعفیٰ، عدم اعتماد یا جلد انتخابات کا انعقاد۔ انہوں نے قبل از وقت انتخابات کروانے کا آپشن قبول کر لیا تھا۔ بظاہر اپوزیشن نے عمران خان کو یہ راستہ دینے سے انکار کر دیا ہے کیوں کہ اس وقت قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف اکثریت موجود ہے۔

ملک کے ایک ایسے با اختیار وزیر اعظم کے سامنے جب فوجی قیادت نے قومی سیاسی بحران حل کرنے کے لئے تین آپشن پیش کیے تو انہوں نے غور سے انہیں سنا اور یہ دلیل بھی دی کہ انہوں نے چونکہ ساری زندگی شکست قبول نہیں کی، اس لئے وہ استعفیٰ تو نہیں دیں گے البتہ جلد انتخابات پر راضی ہو گئے۔ وزیر اعظم اپنی خود مختاری اور اختیار کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکہ ان کی حکومت کے خلاف سازشیں کر رہا ہے، اپوزیشن اس سازش میں عالمی سپر پاور کی شریک بن چکی ہے، اس کے علاوہ تحریک عدم اعتماد کے لئے اسمبلی میں نمبر پورے کرنے کے لئے اربوں روپے بھی صرف کیے گئے ہیں۔ ایسے میں ایک ’با اصول، بہادر اور دیانتدار‘ وزیر اعظم سب سازشوں کے خلاف دیوار بنا ہوا ہے۔ البتہ اس وزیر اعظم کو فوجی قیادت سے یہ سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ وہ کس آئینی حیثیت میں ان کے پاس ایک سیاسی مسئلہ کا حل لے کر آئے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد ایک سیاسی و آئینی معاملہ ہے اور اس سے ملک کی سیاسی پارٹیاں خود ہی نمٹنے کی صلاحیت و استحقاق رکھتی ہیں۔

ریکارڈ کی درستی کے لئے نوٹ کرلینا چاہیے کہ ملک کا وزیر اعظم خود یہ اقرار کر رہا ہے کہ اس نے فوجی قیادت کی طرف سے قبل از وقت انتخاب کروانے کا آپشن مان لیا تھا۔ یعنی ملک کا منتخب وزیر اعظم یہ بات واضح کر رہا ہے کہ یہاں سیاسی فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں ہوتے بلکہ فوجی قیادت کی صلاح و مشورے سے کیے جاتے ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے فوج کے مشورے پر قبل از وقت انتخاب کروانے پر راضی ہوجاتا ہے لیکن یہ تسلیم کرنے میں ’شرم‘ محسوس کرتا ہے کہ اس نے فوجی قیادت کے ذریعے اپوزیشن سے موجودہ سیاسی بحران میں ’فیس سیونگ‘ کی درخواست کی تھی یا عمران خان کی اپنی اصطلاح میں ’این آر او‘ مانگا تھا۔ البتہ سیاسی محاذ پر طاقت ور محسوس کرنے والی اپوزیشن نے یہ آپشن دینے سے انکار کر دیا۔ اپوزیشن نے صرف دو آپشنز کو قابل عمل قرار دیا کہ یا تو عمران خان باعزت طریقے سے استعفیٰ دیں یا تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں اور اکثریت سے محروم ہونے کے بعد عہدے سے علیحدہ کیے جائیں۔

ملک کے سارے سیاست دان سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت ختم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کی خود مختاری اور ’ووٹ کو عزت دو ‘ کے نام پر اس کا اظہار کیا ہے اور وزیر اعظم ایک پیج کی حکمت عملی کو اسٹبلشمنٹ کو ’غیر سیاسی‘ بنانے کا طریقہ قرار دیتے ہیں جس کے تحت عمران خان کے بقول آرمی چیف، ان کا ماتحت ہے اور ان سے صرف سیکورٹی معاملات پر مشاورت کی جاتی ہے لیکن حکم وزیر اعظم کا ہی چلتا ہے۔ اب وہی وزیر اعظم یہ اقرار کرتا پایا گیا ہے کہ فوجی نمائندوں نے جب ماورائے پارلیمنٹ مسئلہ حل کرنے کے لئے ملاقات کی تو وزیر اعظم کی سربراہی میں حکمران جماعت کے لیڈروں نے نہ صرف انہیں خوش آمدید کہا، ان کی باتوں کو غور سے سنا بلکہ فوج کے فراہم کردہ تین آپشنز میں سے ایک کو مان کر اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے فوج کو ضامن بنانے کی کوشش بھی کی۔ یعنی ملک کے وزیر اعظم نے فوجی قیادت کے ذریعے اپوزیشن کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ تحریک عدم اعتماد پر اصرار نہ کرے تو وہ قبل از وقت انتخابات پر راضی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چونکہ اعتماد کا شدید فقدان ہے لہذا یہ مان لینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ اس صورت میں فوج یہ ضمانت فراہم کرتی کہ تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی صورت میں وزیر اعظم حسب وعدہ مقررہ وقت پر اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کر دیں گے۔ اس تصویر میں یہ واضح ہوا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم مسئلہ کا سیاسی و آئینی حل تلاش کرنے کی بجائے ایک ایسے حل کی طرف جانے کو تیار تھا جسے ملکی اسٹبلشمنٹ نے تجویز کیا تھا۔ یہ ایک پیج کی سیاست میں وزیر اعظم کے مکمل با اختیار ہونے کے دعوے پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس کے علاوہ اس سے عمران خان کی جمہوری طریقہ کار اور ملکی آئین سے شیفتگی کا اندازہ بھی جا سکتا ہے۔

موجودہ ملکی بحران میں اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کروانے کی تجویز کے بارے میں چونکہ وزیر اعظم نے اقرار کیا ہے، اس لئے فی الوقت یہی بات واضح ہوئی ہے کہ موجودہ حکومت بہر حال خود کو اسٹبلشمنٹ کا دست نگر سمجھتی ہے اور کسی مشکل سے نکلنے کے لئے اسی کا سہارا لینے کی کوشش کرتی ہے۔ سیاسی و آئینی طریقہ کار کو سازشی تھیوری اور الزام تراشی سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے ترجمانوں کے تسلسل سے سامنے آنے والے بیانات سے اس کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات البتہ غیر واضح ہے کہ اپوزیشن کس حد تک اپنی سیاسی مہم جوئی اور لین دین میں اسٹبلشمنٹ سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کا کہنا ہے کہ ملکی اسٹبلشمنٹ نے ’غیر جانبدار‘ رہنے کا یقین دلایا ہے جس کے بعد ایک نا اہل حکومت سے نجات پانے کے لئے سیاسی عمل شروع کیا گیا تھا۔ روزمرہ سیاست میں رونما ہونے والے واقعات سے اس دعوے کی تصدیق بھی ہوئی ہے لیکن سیاسی بحران حل کرنے کے لئے اسٹبلشمنٹ کی طرف سے تین آپشنز کے جس فارمولے کا عمران خان نے انکشاف کیا ہے، اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سہ نکاتی فارمولے میں اپوزیشن کس حد تک اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملی ہوئی تھی؟

ملکی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کو نیوٹرل کر لینے پر اپوزیشن کو ضرور کریڈٹ ملنا چاہیے۔ اس سے یہ واضح ہوا ہے کہ جو ملکی فوج تمام قومی معاملات میں ’قائدانہ‘ کردار ادا کرنے پر اصرار کرتی رہی ہے، وہ اب بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔ اس حد تک اپوزیشن کی کامیابی کو مانا جاسکتا ہے اور اس کی توصیف بھی ضروری ہے۔ فوجی قیادت کو بھی سراہنا چاہیے کہ تاخیر سے اور خرابی بسیار کے بعد ہی سہی، اس نے بالآخر یہ تسلیم کر لیا کہ ملکی سیاسی معاملات طے کرنا فوج کا کام نہیں ہے اور نہ ہی ملک کی خفیہ ایجنسیوں کو اس کام میں ملوث کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر فوج سیاست سے لاتعلق رہنے کا عہد کرچکی تھی تو تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سہ رکنی فارمولا پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ فارمولا اپوزیشن کی مرضی و صوابدید سے پیش کیا گیا تھا یا اسٹبلشمنٹ ماضی میں اپنے کردار کی وجہ سے ازخود یہ تصور کر بیٹھی تھی کہ موجودہ بحران اس قدر شدید ہے کہ اس کی مداخلت سے مفاہمت کا کوئی راستہ تلاش کرنا ضروری ہے؟

اپوزیشن کو اس سوال کا جواب دینا ہو گا اور اس معاملہ پر اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی کہ جب اسٹبلشمنٹ کی طرف سے قبل از وقت انتخاب کروانے کے بدلے تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی تجویز پیش کی تھی تو اس کا کیا جواب تھا؟ کیا اپوزیشن کے لیڈروں نے دو ٹوک الفاظ میں فوجی قیادت پر یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ سیاسی معاملات میں غیر سیاسی اداروں کی مداخلت کو تسلیم نہیں کر سکتے، اس لئے اس مفاہمتی فارمولے پر عمل نہیں ہو سکتا ۔ یا یہ کہا گیا تھا کہ عمران خان اب کمزور ہے، اس لئے اسے عدم اعتماد کی طرف ہی دھکیلا جائے؟ وزیر اعظم کے انکشاف کے بعد اگر اپوزیشن اس معاملہ پر اپنی پوزیشن واضح نہیں کرتی تو یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ سیاست میں فوج کی غیر جانبداری کا جو ماحول پیدا ہوا تھا، نہ صرف وہ ختم ہو جائے گا بلکہ ملک میں سیاسی قوتوں کی اہمیت اور شہرت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

تحریک انصاف حکومت کی ناکامی کی دو ہی وجوہات ہیں۔ ایک اس کی اپنی نا اہلی اور ناقص کارکردگی، دوسرے فوج سے دوری اور پارلیمانی حمایت کے لئے اسٹبلشمنٹ کا عدم تعاون۔ یہ عدم تعاون اگر مستقل طور سے طے شدہ کسی اصول کے تحت دیکھنے میں آیا ہے، پھر تو اسے جمہوریت کی کامیابی کہا جائے گا لیکن اگر عمران خان سے ’نجات‘ حاصل کرنے کے لئے وقتی طور پر اپوزیشن کو طاقت ور بنانے کے لئے یہ اصول مانا گیا تھا اور ضرورت پڑنے پر پھر سے اسٹبلشمنٹ سیاسی منظر نامہ میں متحرک ہو چکی ہے اور اپوزیشن لیڈر اس کے نقصانات دیکھنے سے قاصر ہیں۔ یا اسے مسترد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو یہ ملک میں آئینی سیاسی عمل کے حوالے سے اچھی خبر نہیں ہے۔

کسی حد تک یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسی صورت میں ’عوامی حاکمیت‘ کا جو علم کل تک نواز شریف نے سنبھالا ہوا تھا، عدم اعتماد کے بعد عمران خان اس نعرے کو اپنا ’مشن‘ بنا کر سیاسی میدان میں اتریں گے۔ اور اپنی بے باک قیادت کے خلاف ’ایک سپر پاور کی سازش کے منصوبہ اور فوجی اسٹبلشمنٹ کی بے رخی‘ کا آمیزہ عوام میں فروخت کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ یہ سیاسی مشن عمران خان کو اقتدار میں واپس نہ بھی لا سکے تو بھی ملک میں ایک طویل المدت سیاسی و سماجی عدم استحکام کا سبب ضرور بنے گا۔

(بشکریہ کاروان ناروے)

واپس کریں