دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دو ٹوک تقریر، نیا اتحاد اور پاکستان کا سیاسی مستقبل
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
اسلام آباد میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن پارٹیوں نے موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ اجلاس کے آغاز میں سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی دو ٹوک تقریروں کے بعد کیا گیا ہے۔ نواز شریف نے ملکی سیاست پر سال بھر کی خاموشی توڑتے ہوئے اپنی طویل تقریر میں واضح کیا تھا کہ ’ہماری جد و جہد عمران خان کے خلاف نہیں ہے بلکہ انہیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے‘۔

نواز شریف نے ملکی تاریخ میں پہلی بار صاف الفاظ میں اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت پر بات کرتے ہوئے سیاسی عمل میں غیر سیاسی اداروں کی مداخلت کا تفصیل سے ذکر کیا اور کہا کہ ملک میں جمہوریت کو یرغمال بنایا گیا ہے، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ نواز شریف کی تقریر کو اس حوالے سے اہم سمجھا جارہا ہے کہ انہوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر حالات کا جائزہ لیتے ہوئے سیاست میں غیر سیاسی اداروں کی مداخلت کی تاریخ بیان کی اور کہا کہ ملکی سلامتی کی بات کرنے والے سیاست دانوں کو غدار قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے 2016 میں سامنے آنے والے اسکینڈل ’ڈان لیکس‘ کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ ایک اجلاس میں ’قومی سلامتی کے امور پر بحث کے دوران توجہ دلائی گئی کہ دوستوں سمیت دنیا کو ہم سے شکایت ہے۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ دنیا ہم پر انگلی نہ اٹھائے۔ اسے ڈان لیکس کا نام دیا گیا ۔ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جے آئی ٹی بنی اور مجھے غدار اور ملک دشمن بنا دیا گیا‘۔

آج کی کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کے استعفیٰ کے لئے مرحلہ وار احتجاج کا پروگرام طے کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ اسٹبلشمنٹ سیاست میں مداخلت بند کرے۔ اپوزیشن کی اے پی سی نے اس سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے سی پیک کے چئیرمین اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کے سلسلہ میں سامنے آنے والی معلومات کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ حالانکہ عمران خان یہ کہتے ہوئے عاصم باجوہ کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کرچکے ہیں کہ انہوں نے صحافی احمد نورانی کی رپورٹ پر جو وضاحت کی ہے وہ کافی ہے۔ اب اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیہ میں اس معاملہ کو شامل کرکے براہ راست ملک کی عسکری قوت کو فریق بنایا گیا ہے۔

اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جو باتیں اس سے پہلے اشاروں کنایوں میں کی جاتی تھیں ، اب ان شکائیتوں کا برملا اظہار ہؤاہے اور دو ٹوک الفاظ میں ملکی سیاسی عمل کو غیر منتخب اداروں کی مداخلت اور اثر و رسوخ سے پاک کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ یہ بات فی الوقت اگر محض مطالبے اور تقریروں تک بھی محدود رہے تو بھی اس کے ملکی سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ اقدام ملک میں جمہوری روایت مستحکم کرنے کے لئے اہم ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلے سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کا حوالہ دینے کے لئے کبھی محکمہ زراعت اور کبھی خلائی مخلوق کی اصطلاحات استعمال کی جاتی تھیں۔ اب یہ حجاب اتار پھینکا گیا ہے۔

اے پی سی کے افتتاحی اجلاس میں لندن سے نواز شریف کی تقریر میں ہی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت پر احتجاج سامنے آگیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف ملک میں جمہوریت پر عسکری اداروں کی دسترس کا کھل کر ذکر کیا بلکہ عدالتوں کے کردار پر بھی افسوس کا اظہار کیا جو نظریہ ضرورت کے تحت آمروں کے اقدامات کو جائز قرار دیتی رہی ہیں۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ سامنے آیا لیکن اس پر عمل کی نوبت نہیں آئی۔ ملک کا آئین توڑنے والوں کو کھلی چھوٹ دی گئی اور آئین کا احترام کرنے والے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ نواز شریف نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست ہے لیکن اب معاملہ ریاست سے بالائے ریاست تک پہنچ گیا ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے۔ جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے۔ انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا، کس کو جتانا ہے۔ عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو ایسے تجربات کی لیبارٹری بنا دیا گیا۔

اپوزیشن کی کانفرنس کے حوالے سے وزیر اطلاعات شبلی فراز سمیت متعدد وفاقی وزرا، مشیروں اور معاونین خصوصی نے اظہار خیال کیا ہے اور اسے کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے ’این آار او‘ مانگنے کا طریقہ قرار دینے کی کوشش کہا ہے ۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے تو اس کانفرنس کو ’آل پاکستان لوٹ مار ایسوسی ایشن‘ قرار دیا اور اجلاس کو ’چوروں کا اجتماع ‘کہا جو علاقے میں ایک ایماندار تھانیدار کے آنے سے پریشان ہیں۔ تاہم سرکاری حلقوں کی طرف سے اپوزیشن کانفرنس اور احتجاج پر کی گئی اس بے بنیاد تنقید اور گھٹیا الفاظ کے چناؤ سے سرکاری حلقوں میں اپوزیشن کے اتحاد کے حوالے سے پائی جانے والی بے چینی کا ہی پتہ چلتا ہے۔ اس دوران البتہ یہ حوصلہ افزا اور مثبت فیصلہ سامنے آیا کہ حکومت نے نواز شریف اور دیگر لیڈروں کی تقریروں کو براہ راست نشر کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ خبروں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے وزیروں اور مشیروں کے مشورے کے برعکس نواز شریف کی تقریر براہ راست دکھانے کی اجازت دینے کا حکم دیا تھا۔

اجلاس میں نواز شریف کے خطاب کی خبر سامنے آتے ہی حکومت کی جانب سے پیمرا سمیت سارے قانونی طریقے بروئے کار لاتے ہوئے اس تقریر کو براہ راست براڈ کاسٹ کرنے سے روکنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا۔ اس ابتدائی فیصلہ پر عمل کیا جاتا تو حکومت کی مشکل اور پریشانی میں اضافہ ہوتا۔ عمران خان نے بروقت اسے تبدیل کرکے اختلاف رائے برداشت کرنے کے حوالے سے کسی حد تک حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنی حکومت کے دامن کو آزادی رائے کے خلاف اقدامات کے حوالے سے ایک نیا دھبہ لگنے سے بچایا ہے۔ نواز شریف کی تقریر سوشل میڈیا پر اسٹریم کرنے کا انتظام کرلیا گیا تھا اور سخت ترین پابندی کے باوجود، ان کے خیالات کسی نہ کسی طرح گھر گھر پہنچ ہی جانے تھے لیکن ٹیلی ویژن اسٹیشنوں پر پابندی کی صورت میں حکومت پر شدید الزام عائد ہوتا ۔

نواز شریف کی تقریر اور اپوزیشن کا احتجاج شروع کرنے کے فیصلہ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں پاکستان کی قومی سیاست کے حوالے سے متعدد سنجیدہ سوالات پیدا ہوں گے۔ اس مشکل سے باہر نکلنے کا آسان طریقہ تو یہی ہے کہ حکومت اپوزیشن کا ’بلیک آؤٹ‘ کرنے اور ہر سیاسی یا پارلیمانی مطالبے کو ’این آر او‘ کی کوشش قرار دینے کی بجائے ملک میں سیاسی تعطل دور کرنے کی کوشش کرے۔ اس کا حل پارلیمنٹ اور اس سے باہر سیاسی مکالمہ اور افہام و تفہیم سے ہی نکالا جاسکتا ہے۔ عمران خان کو باور کرنا ہوگا کہ مشترکہ اپوزیشن کے مطالبے کا سامنا کرنے والے وہ پہلے لیڈر نہیں ہیں اور نہ ہی وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جو اپوزیشن کو بے وقعت اور حریص سمجھ کر حقارت سے ان کی باتوں کو نظرانداز کرنا چاہتے ہیں۔ تاریخ سے اگر کوئی سبق سیکھا جاسکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ ان غلطیوں کو نہ دہرایا جائے جو ماضی میں شدید نقصان کا سبب بنتی رہی ہیں۔ ملک پہلے ہی معاشی، سفارتی اور سماجی لحاظ سے شدید مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ ان حالات میں ملک کی سیاسی طاقتوں کے درمیان تصادم کی کوئی بھی صورت حال خوشگوار نہیں ہوگی۔

یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اپوزیشن کس حد تک عمران خان کے استعفیٰ کے لئے دباؤ بڑھاتی ہے لیکن اگر یہ کوشش صرف تقریروں اور بیانات کی حد تک بھی رہی تو بھی حکومت کے لئے اس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ تحریک انصاف کی حکومتیں کسی بھی شعبہ میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی ہیں۔ اسے بلاشبہ فوج کی تائد و حمایت حاصل ہے لیکن عسکری حلقوں کی حمایت بھی حکومت کی معاشی کارکردگی اور پرسکون سیاسی ماحول سے مشروط ہوتی ہے۔ اگر ملک میں سیاسی بے چینی کا سلسلہ دراز ہوتا ہے تو وہی فوج جو آج عمران خان کی پشت پر ہے، ان سے اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے کرنے کا تقاضہ کرے گی۔ فوج کے لئے خاص طور سے یہ اقدام کرنا یوں بھی ضروری ہوجائے گا کہ اس وقت اس پر براہ راست دباؤہے اور ملک میں سیاسی نظام کو جمہوری انتخاب کے ذریعے چلانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ عمران خان کی حکومت جمہوریت میں اداروں کی بالواسطہ مداخلت کی علامت بن چکی ہے۔

اپوزیشن کانفرنس کے نتیجہ میں عمران خان، تحریک انصاف اور حکومت کو ہی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا بلکہ فوج کے لئے بھی ایک دشوار صورت حال پیدا ہوئی ہے، جس میں ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص نے انتخابات سے بالا فیصلے کرنے اور من پسند افراد کو اقتدار دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ سیاست میں فوج سمیت کسی بھی غیر منتخب ادارے کی مداخلت غیر آئینی ہے اور پاک فوج کی قیادت ہمیشہ ہمہ قسم غیر آئینی اقدامات سے انکار کرتی رہی ہے۔ اس لئے جب براہ راست الزام عائد ہوگا تو فوج کو اپنی پوزیشن صاف کرنا پڑے گی ۔ یہ مقصد اپوزیشن کی آواز کو دبا کر حاصل نہیں ہوسکے گا۔ عسکری قیادت کو جلد یا بدیر احساس ہوجانا چاہئے کہ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ جو باتیں سوشل میڈیا پر انفرادی مباحث میں کی جاتی تھیں یا بعض تجزیہ نگار جن پر صرف بالواسطہ طور سے رائے ظاہر کرتے تھے، اب وہ ’ٹاک آف دی ٹاؤن‘ بن چکی ہیں۔ فوج کے لئے یہ نئی نوعیت کا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لئے اسے ہوشیاری سے اپنا دامن سیاست کی آلودگی سے بچانا ہوگا۔

تاہم نواز شریف کی تقریر سے پیدا ہونے والے ماحول میں سب سے بڑا چیلنج خود نواز شریف، مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کی دیگر قیادت کے لئے ہوگا۔ نواز شریف ماضی میں خود ان انتظامات کا حصہ رہے ہیں جنہیں وہ اب جمہوریت کش قرار دے رہے ہیں۔ اب بھی ان کے برادر خورد ’مصالحت‘ کے نام پر جو داؤ پیچ آزماتے رہتے ہیں، ان کا مقصد انتخابات جیتنے کی بجائے اس جیت کے لئے پیشگی اعانت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ یہ حمایت ووٹروں سے نہیں بلکہ ان قوتوں سے مانگی جاتی ہے جنہیں اب نواز شریف جمہوریت سے کھلواڑ کا ذمہ دار کہہ رہے ہیں۔ شہباز شریف اب بھی اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں۔ نواز شریف کو آج کی تقریر کے بعد اپنی پارٹی کے عملی کردار سے اپنے الفاظ کی حرمت ثابت کرنا ہوگی۔
واپس کریں