دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہیپی نیو ائیر ٹو پاکستان
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
کوئی ایسا شخص جو کسی دورافتادہ جزیرے میں بستا ہو، پاکستان کا اُس نے نام بھی نہ سنا ہو ، اگر اسے مسلسل ایک مہینے تک پاکستانی میڈیا میں شائع اور نشر ہونے والی خبریں سنائی جائیں اور کہا جائے کہ تیس دن بعداس ملک کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کرواور بتاؤ کہ اس ملک کے حالات کیسے ہیں تو شاید وہ کچھ اس قسم کی رپورٹ بنائے گا:’’پاکستان میں بائیس کروڑ جنونی افراد بستے ہیں جو ہر وقت ہر ملک کے خلاف ایٹمی جنگ لڑنے کے لئے تیار ہیں، یہاں کے لوگ زیادہ تر دہشت گردی میں مارے جاتے ہیں، ملک میں قانون اور آئین نام کی کوئی چیز نہیں، یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا ہے، لوگ ہر کام پیسے دے کر نکلواتے ہیں، سفارش اور کرپشن کا چلن عام ہے، کوئی بھی نوکری بغیر سفارش یا رشوت کے نہیں ملتی، ملک میں کوئی ٹھیکہ یا ٹینڈر شفاف طریقے سے نہیں دیا جاتا، بدعنوانی ختم کرنے کے ادارے تو قائم ہیں مگر بدعنوانی ختم نہیں ہوتی، مذہبی تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ ملک میں غیر مسلموں کی عبادت گاہیں ختم کر دی گئی ہیں، درس گاہوں کا حال نہایت برا ہے، کسی سے ذرہ برابر بھی اختلاف ہو تو اسے زندہ جلا کر مار دیا جاتا ہے، عورتوں سے لونڈیوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے، مرد اپنے حرم میں دس بیویاں رکھتے ہیں، عورتوں کو باہر جانے یا کام کرنے کی کوئی آزادی نہیں، بظاہر ملک میں سول ادارے قائم ہیں، پولیس، فوج اور عدالتیں بھی کام کر رہی ہیں مگر ان کا کسی پر زور نہیں چلتا، چند ہزار ڈنڈا بردار لوگ ملک کے دارالحکومت میں جمع ہوکر سارا کاروبار مملکت (جو پہلے ہی ناکارہ ہے) مفلوج کرکے ہر قسم کے مطالبات منوا سکتے ہیں،مختصراً اس ملک کے حالات افریقہ کے کسی جنگ زدہ ملک سے بھی بدتر ہیں۔‘‘

ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگو ں کا خیال ہو کہ اس فرضی رپورٹ میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں، ایسے ہی تو ہیں پاکستان کے حالات اور ہو سکتا ہے کچھ لوگ یہ کہیں کہ اس میں سے بعض باتیں تو بہرحال درست ہیں جیسے کہ سفارش اور کرپشن کا کلچر عام ہونا یا اداروں کا مفلوج ہونا۔چلیں اسی پر بات کرتے ہیں۔پاکستان میں کم از کم دو ادارے ایسے ہیں جن میں شمولیت کو اعزاز سمجھا جاتا ہے، ایک سول سروس اور دوسرا فوج۔سول سروس میں بھرتی کا طریقہ کا ر فیڈرل پبلک سروس کمیشن بناتی ہے، سینٹرل سپیرئیر سروسز جسے عرف عام میں سی ایس ایس کہا جاتا ہے،کا حصہ بننا کم و بیش ہر پڑھے لکھے قابل نوجوان کا خواب ہے، ہر سال ایف پی ایس سی یہ اسامیاں مشتہر کرتی ہے، ملک کے طول و عرض سے نوجوان کمیشن کو درخواستیں جمع کرواتے ہیں جن کی چھانٹی کے بعد کمیشن صرف ان نوجوانوں کا تحریری امتحان لیتا ہے جو مطلوبہ اہلیت پر پورا اترتے ہیں،اس کے بعد جو امیدوار یہ تحریری امتحان پاس کر لیتے ہیں انہیں انٹر ویو کے لئے بلایا جاتا ہے اور پھر کامیاب امیدواروں کی ایک حتمی فہرست جاری کی جاتی ہے،یوں ہزاروں امیدواروں میں سے چند خوش نصیب ہی سول سروس کا حصہ بن پاتے ہیں۔ ملک میں رائج تمام تر کرپشن، اقربا پروری اور رشوت ستانی کے باوجود سی ایس ایس کے امتحانات پر آج تک کسی نے انگلی نہیں اٹھائی، ایف پی ایس سی کابطور ایک سول ادارہ یہ شاندار ریکارڈ ہے ۔ اس پورے عمل میں اگر کوئی قابل اعتراض بات ہے تو وہ دس فیصد کوٹہ ہے جو ان امیدوارو ں کے لئے مختص ہے جو فوج کے ذریعے درخواستیں جمع کرواتے اور جنہیں تحریری امتحان کی کڑی منزل سے نہیں گزرنا پڑتا، یہ رسم بھی ایک ڈکٹیٹر کی ہی دین ہے، جی ہاں، جنرل ضیا الحق، اس کے علاوہ پورا عمل شفاف ہے، کچھ مایوس او ر پیدائشی حاسد قسم کے لوگ گاہے گاہے ایف پی ایس سی پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں مگر یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر جنت میں بھی بھیج دیا جائے تو وہاں بھی کیڑے نکال کر واپس آ جائیں گے۔
دوسرا ادارہ فوج ہے جس میں بھرتی کا طریقہ کار بھی بالکل اسی طرح شفاف ہے، باقاعدہ تحریر ی اور زبانی امتحانات لئے جاتے ہیں، فٹنس ٹیسٹ ہوتا ہے اور پھر ایک کڑی آزمائش کے بعد فوج کی نوکری کا پروانہ ملتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم چاہے کتنی بھی برائیاں کریں کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہماری فوج میں بھرتی، ترقی اور تعیناتی کا نظام ناقص ہے بلکہ الٹا ہم فوج کے نظام کی مثالیں دیتے ہیں اور بجا طور پر فخر کرتے ہیں کہ ہماری فوج ایک بہترین پروفیشنل آرمی ہے۔ مگر اسی زبان میں ہم ایک بالکل متضاد رائے بھی دیتے ہیں کہ ملک میں ہر ادارہ تباہ ہو چکا ہے، کہیں بھی سفارش اور رشوت کے بغیر نوکری نہیں ملتی۔ اگر یہ باتیں ایسے ہی درست ہوں تو کوئی یہ نہ کہے کہ ہماری فوج بہترین ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اگر سول سروس میں بھرتی محض سفارش سے ہو تو پھر کسی وفاقی سیکریٹری کا بیٹا سی ایس ایس کا حصہ بننے سے محروم نہ رہے اور کوئی مڈل کلاس لڑکی یا لڑکا اس میں شامل ہی نہ ہو پائے۔ فوج اور سول سروس میں بھرتی کرنے والے اور بھرتی ہونے والے لوگ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور اگر یہ نظام درست ہے تو پھر پورے کے پورے سسٹم پر تبریٰ کرکے نظام کو گالیاں دے کر ہر وقت سینہ کوبی کرنا کیسے درست ہو گیا؟ آ پ اتوار کا اخبا ر اٹھائیں،اِس میں ہر قسم کی اسامیاں مشتہر کی گئی ہوں گی، بینک کے چیف ایگزیکٹو سے لے کر کسی ادارے کے ایم ڈی تک اور اسٹینو گرافر سے لے کر کلرک تک، حال مگر یہ ہے کہ اہل امیدوار ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا مگر ویسے ملازمت کے متلاشی بے شمار پھرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ملک کا ہر ادارہ تمام اسامیاں میرٹ پر پُر کر رہا ہے اور کہیں کوئی سفارش نہیں چلتی، بے شمار خرابیاں ہیں نظام میں مگر یہ تصویر کشی کرنا کہ ملک میں کوئی سسٹم یامیرٹ سرے سے موجود ہی نہیں صریحا ً مبالغہ آرائی ہوگی۔

ایک اور بات پر بھی آج کل بہت ماتم کیا جاتا ہے کہ اس ملک میں قانون صرف کمزور کے لئے ہے طاقت ور کے لئے کوئی قانون نہیں۔ حوالہ شاہ رُخ جتوئی کیس وغیرہ۔ یہ درست ہے کہ اشرافیہ اپنے پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر قانون کو مروڑ لیتی ہے مگر اسی ملک میں ایک وزیر اعظم ’’قتل کے الزام‘‘ میں پھانسی چڑھ چکا ہے اوردوسرا وزیراعظم احتساب عدالت میں پیش ہو رہا ہے۔اسی ملک میں لوگ آج بھی ٹیکس کا نوٹس وصول ہونے پر پریشان ہو جاتے ہیں اورعدالت کے سمن ملنے پر ہمیں مصیبت پڑ جاتی ہے۔ نظام اگر ایسا ہی فرسودہ ہو تو کسی کو کوئی نوٹس جاری ہو اور نہ کوئی ان اداروں کی پروا کرے۔ ملک میں قحط الرجال بھی ہے اور اداروں میں زبوں حالی بھی مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ایسی منظر کشی کی جائے کہ پاکستا ن روانڈا یا ڈی آر کانگو لگے۔ نئے سال کا آغاز نیک تمناؤں اور اپنے ملک کی مثبت باتوں سے کرنا چاہئے، پاکستان میں کیڑے تو ہم سال کے باقی دنوں میں نکالتے ہی رہتے ہیں، کم ازکم جنوری میں اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ہیپی نیو ائیر ٹو پاکستان۔
واپس کریں